علی نقوی ، سپر لیڈ ، لاہور۔ نوازشریف دورمیں علمانےدورہ اسرائیل کس کےکہنےپرکیا؟مولانا اجمل قادری کے اچانک پاکستانی میڈیا میں نمودار ہونے پر ہلچل مچ گئی ۔
انیس سو اٹھانوے میں نواز شریف کے دورحکومت میں حکومتی سرپرستی میں وفد کے دورہ اسرائیل کا انکشاف ہوا ہے لیکن اس دورے میں واحد پہلو آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ نکالنا تھا۔ مرکزی جمعیت علمائے اسلام کے سرپرست اعلیٰ اجمل قادری کے دورے کی تصاویر سامنے آگئیں ۔
کانفرنس میں دنیا سے 70علما نے شرکت کی ،اجمل قادری
میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا اجمل قادری نے کہا ہے کہ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے علما نے شرکت کی تھی ۔لگ بھگ ستر کے قریب علما موجود تھے ۔ ہمارے ساتھ اس وقت وزارت خارجہ کے سیکرٹریز رابطے میں تھے ۔ یاسر عرفات آن بورڈ تھے ۔ پاکستانی وفد نے بیت المقدس کے امام سے بھی ملاقات کی تھی ۔
اجمل قادری کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بھی معاملہ زیر بحث آگیا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ حکومتی وزرا اس معاملے کو نوازشریف سےبراہ راست جوڑنے لگے اور اس دورے کو اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے مترادف قرار دینے لگے ۔
مراد سعید نے کہا مولانا اجمل قادری نے اسرائیل دورے اور ان سے تعلقات استوار کرنے کا اعتراف کر کے نواز شریف اور فضل الرحمان کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ۔ کیا اب بھی سمجھ نہیں آئی کہ جنگ بڑی ہے اور یہ مہرے ہیں ؟ دوسروں پر یہودی ایجنٹ کا الزام لیکن خود انکے کام بھی سامنے ہیں ۔
پاکستانی وفد کے 1998کے دورے میں سول حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ؟
دوسری جانب سوشل میڈیا پر ہی ن لیگ کی حمایت بھی ہونے لگی ۔ بظاہر اسے موجودہ اسٹیبلشمنٹ کان لیگ کے خلاف پراپیگنڈا قرار دیاجارہا ہے ۔ صارفین کے مطابق موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ نے اجمل قادری کو بیان دینے کے لئے راضی کیا ہے تاکہ معاملے کو ن لیگ کی جانب موڑا جائے ۔
ن لیگی ذرائع کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نے 1998 میں کئے گئے دورے کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے ۔ مولانا اجمل قادری نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں کہیں یہ نہیں کہا کہ اس وقت کا دورہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے تھا۔
پارٹی رہنماؤں کے مطابق وہ علما کانفرنس تھی جس میں مختلف ممالک کے 70علما موجود تھے اور وہ کانفرنس بیت المقدس میں ہوئی تھی ۔ اس کانفرنس کا مقصد صرف آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ خود یاسر عرفات بھی اس عمل کا حصہ تھے اور وہ کانفرنس بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہوئی تھی نوازشریف کی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔