دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، اسلام آباد۔ سپریم کورٹ نے16ہزار برطرف ملازمین بحال کر دیئے ، حکومت کے لئے ایک اور مشکل ، تنخواہیں کہاں سے دی جائیں گی ؟حکومتی حلقوں میں تشویش دوڑ گئی ۔
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق سپریم کورٹ نے سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کے ذریعے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف دائر نظر ثانی درخواستوں پر فیصلہ جاری کر کے حکومت کے لئے مشکلات بڑھا دیں ۔
جمعے کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنایا اور پھر8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا ۔
پانچ رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے فیصلہ جاری کیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ فیصلے کی رو سے بحال ہونے والے سرکاری ملازمین کو برطرف کرنے سے متعلق تمام نظر ثانی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں یعنی اب مختلف محکموں کے برطرف 16ہزار ملازمین اپنے عہدوں پر بحال ہو جائیں گے ۔
عدالت نے قرار دیا سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 آئین کے آرٹیکل 4، 9، 18 اور 25 کے خلاف ہے ۔ اسی لئے اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔ عدالت کے مطابق یکم نومبر 1996 سے 12 اکتوبر 1999 تک برطرف کیے گئے ایسے ملازمین جن کی تعیناتی کیلئے کسی استعداد، تعلیمی قابلیت یا مہارت کا امتحان درکار نہیں تھا کو نظرثانی فیصلے کے دن سے ان پوسٹوں پر ان شرائط کے ساتھ بحال کیا جاتا ہے جس پر وہ ابتدائی برطرفی کے وقت تعینات تھے۔ ان پوسٹوں پر ملازمت کیلئے لاگو انہی شرائط کو بھی بحال کیا رہا ہے ۔
مذکورہ ریلیف یکم نومبر 1996 سے 12 اکتوبر 1999 تک برطرف کیے گئے ایسے ملازمین پر لاگو نہیں ہو گا جنہیں ڈیوٹی سے غیر حاضری ، مس کنڈکٹ،کرپشن اورمالی خورد برد یا طبی بنیادوں پر ملازمت کیلئے غیر موزوں قرار دے کر برطرف کیا گیا۔
تحریک انصاف کے لئے ایک کے بعد ایک مشکل
تجزیہ کاروں کے مطابق ملازمین کی بحالی کے لئے انتظامی بحران بھی آسکتا ہے ۔ مختلف محکموں میں پہلے ہی فنڈز کی قلت ہے یہاں تک کے بعد محکموں کی تنخواہیں بھی تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں ایسے میں سولہ ہزار ملازمین کو ان کی مراعات سمیت بحال کرنا ایک نئے چیلنج سے کم نہیں ۔ فیصلے کے بعد سرکاری سطح پر کسی حکومتی رہنما کا بیان سامنے نہیں آیا۔