ٹھٹھہ سے تقریبا 36 کلومیٹر دور کینجھر جھیل اپنا دامن پھیلائے بیٹھی ہے ۔ صاف پانی کی یہ جھیل ہر سال بیسیوں افراد کو کھینچ لیتی ہے ۔ پھر بھی حفاظتی اقدامات کا کوئی نہیں سوچتا۔
اس جھیل کی لہریں بعض اوقات سمندر جیسی ہو جاتی ہیں ۔ چاندنی رات میں تو کوئی جھیل میں کودنے کا رسک نہیں لیتا ۔
سندھ کے ملاح ہی ایسے نڈر ہیں کہ دن ہو یا رات پانی میں کودتے ذرانہیں ڈرتے ۔ انہی ملاحوں کے خاندانوں میں ہر سال کوئی نہ کوئی پانی میں ڈوب کرکبھی واپس نہیں آتا۔
نوری جام تماچی کا مزاراصل حالت میں موجود
جھیل کے عین وسط میں نوری جام تماچی کا مزار بھی بے رحم موجوں کا برسوں سے مقابلہ کر رہا ہے ۔
سندھ لوک داستان میں نوری جام کو اہم مقام حاصل ہے ۔ سیاح کشتیوں میں مزار تک پہنچتے ہیں اور خطرناک طریقے سے پانی میں آدھی ڈوبی سیڑھیوں پر قدم رکھ کر مزار میں داخل ہوتےہیں ۔
اس موقع پر ملاح سیاحوں کی بھرپور معاونت کرتےہیں ۔
کینجھر نے دس افراد کو نگل کر ایک مرتبہ پھر کئی سوالات کو جنم دیا ہے ۔پھر وہی گلی سڑی لکڑی کی کشتیاں ، لائف جیکٹس کہیں دستیاب کہیں غائب۔
حالیہ واقعہ کراچی کے علاقے محمود آباد کے ایک محلے کےلئے قیامت کا پیغام لایا۔
جھیل میں ڈوب کر 10افراد جاں بحق
پکنک منانے کے لئے کراچی سے ٹھٹھہ کی کینجھر جھیل جانے والے 13افراد ڈوب گئے ۔ المناک سانحے میں دس افراد جاں بحق ہوئے ۔
محمود آباد کے رہائشی تین خاندان صبح سویرے مشترکہ طور پر پکنک کے لئے روانہ ہوئے ۔
جھیل پر نہانے کے دوران کشتی کا سفر کیا مگر اس دوران تیز ہواؤں کےباعث کشتی الٹ گئی اور تمام افراد پانی میں ڈوب گئے ۔
دس افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ موقع پر موجود چند افراد نےڈوبنے والے تین افراد کو بچا لیا ۔ دس لاشیں کراچی منتقل کر دی گئیں ۔
بچ جانے والے تینوں افراد کا ہسپتال میں علاج جاری ہے ۔ تینوں کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔
واقعے کے بعد پاکستان نیوی کے غوطہ خور بھی پہنچے اور کشتی الٹنے کے مقام سے لاشیں نکال لیں ۔
ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق کشتی میں سوراخ تھے ۔ ملاح کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔
کشتی میں لائف جیکٹس موجود تھیں مگر پھر بھی حادثہ رونما ہوگیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی کمشنرٹھٹھہ سےرپورٹ طلب کرلی ہے ۔
کینجھر کتنی گہری ہے ؟
کینجھر جھیل میں یومیہ ہزاروں افراد پکنک کے لئے رخ کرتے ہیں ۔ کراچی سے آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔
اسی طرح حیدر آباد اور اندرون سندھ سے بھی شہری تفریح کےلئے یہاں آتے ہیں ۔ جھیل کی وجہ شہرت اس کا میٹھا پانی ہے ۔ جو ٹھٹھہ اور کراچی تک سپلائی ہوتا ہے ۔
صاف پانی کی یہ جھیل پاکستان کی صاف پانیوں کی دوسری بڑی جھیل ہے ۔ اس جھیل کی گہرائی کناروں پر ایک سے تین فٹ ہے جبکہ وسط میں سات اعشاریہ 9میٹر تک بھی گہری ہو جاتی ہے ۔
جھیل کی لمبائی چوبیس کلومیٹر جبکہ چوڑائی چھے کلومیٹر ہے ۔ یہ جھیل کتنے افراد کی جانیں لے گی ؟
کیا انتظامیہ سیاحوں کے لئے کوئی حفاظتی اقدامات اٹھائے گی ؟کیا جھیل کنارے سیاحوں کو مہنگے داموں اشیا فروخت کرنے والے کبھی کسی ریگولیٹری باڈی کے زیر انتظام آئیں گے ؟ اس کا جواب برسوں سے نفی میں ہے ۔