بلال اللہ زہری ، سپرلیڈ نیوز، کوئٹہ
پاکستان مشرقی کے ساتھ اب مغربی سرحد پر بھی ایک نئے چیلنج سے نبرد آزما ہے ۔
سپر لیڈ نیوز کے مطابق ایک روز قبل چمن بارڈرپر افغان فورسز کے ساتھ جھڑپ کے بعد اب بھی حالات کشیدہ ہیں ۔
علاقے میں فورسزکی تعداد بڑھا دی گئی ہے ۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ جمعرات کی شام معاملہ اس وقت خراب ہوا جب عوام کی بڑی تعداد نے افغان بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی ۔
اس موقع پر مظاہرین نے باب دوستی پر دھرنا دے دیا اور شدید نعرے بازی کی ۔ فورسز کو ایکشن لینا پڑا یوں یہ علاقہ میدان جنگ بن گیا
اکسٹھ روز بعد فورسز اور مظاہرین کے مذاکرات کامیاب ہو گئے یوں یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔
مظاہرین کون تھے ؟
مارچ دو ہزار بیس میں حکومت پاکستان نے کورونا کے خطرات کے پیش نظر پاک افغان بارڈر کو مکمل بند کردیا۔ ہر قسم کی آمدروفت روک دی گئی ۔
ساتھ ہی پیدل سفر کرنے والوں پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ تاہم ایک ہفتے بعد ہی حکومت نے تجارت کھول دی ۔
نیٹو کو رسد کی فراہمی کے لئے ایک ہفتے سے کھڑے کنٹینروں کو بھی افغان علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے دی ۔
دوسری جانب افغان باشندوں کو واپس اپنے وطن بھیجنے سے روک دیا گیا۔اسی طرح تجارت کی غرض سے افغان علاقے میں گئے پاکستانی بھی وہاں ہی محصور ہو گئے ۔
انہی ایام میں مظاہرین کے ایک وفد سے چمن بارڈر سے کچھ دور احتجاج شروع کر دیا ۔اور بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا ۔
بات بڑھتی رہی اور دھرنے تک جا پہنچی ۔ دیگر علاقوں سے بھی پاکستانی اور افغان شہری آگئے اور دھرنا طوالت اختیار کرتا رہا۔
علاقے کی تاریخ کے طویل ترین دھرنے میں مظاہرین کا صبر اس وقت ٹوٹا جب افغان شہریوں نے عید پر اپنے آبائی علاقے میں جانے کے لئے بارڈر کھولنے کا مطالبہ کیا ۔
جمعرات کے روز شام کو ایک گروپ نے باب دوستی کے قریب زبردستی جانے کی کوشش کی۔ اس دوران مظاہرین آپے سے باہر ہوگئے اور فورسز پر پتھراؤ شروع کر دیا۔
اس گروپ کی مدد کو باقی مظاہرین بھی آگئے اور چوکی پر دھاوا بول دیا مظاہرین نے قریب ہی سرکاری قرنطینہ سنٹر کو بھی آگ لگادی ۔
عینی شاہدین اور موقع پر موجود سکیورٹی حکام کے اس حوالے سے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔ مظاہرین کے مطابق پاکستانی فورسز نے سیدھے فائر کئے جس کے نیتجے میں تین افراد ہلاک جبکہ تیرہ زخمی ہو گئے ۔
دوسری جانب سکیورٹی حکام کے مطابق مظاہرین کے ایک گروپ نے زبردستی بارڈر کراس کرنے کی کوشش کی انہیں روکا تو تصادم ہوگیا ۔
افغان فورسز نے دوسری جانب سے فائرنگ شروع کر دی جس سے مظاہرین ہلاک ہوئے ۔
حکومت پاکستان کا موقف
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغان سکیورٹی فورسز نے پاکستانی علاقے میں فائرنگ کی ہے۔ پاکستانی فورسز نے جوابی طور پر کارروائی جس سے سرحد پار نقصان ہوا ہے۔
اس جانی نقصان پر افسوس ہے ۔ عائشہ فاروقی نے کہا افغان فورسز نے پاکستانی حدود میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ۔
انہوں نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ بارڈر افغانستان کی درخواست پر کھولا گیا تھا ۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور نیٹو کو سپلائی جاری تھی ۔ افغان حکام کی درخواست پر ہی دو طرفہ پیدل سفر روکا گیا تھا۔
پیدل بارڈر کراس کرنے والے کون ہیں ؟
پاکستان اور افغانستان کا بارڈر دنیا کا منفرد بارڈر ہے جہاں دونوں ممالک کے سینکڑوں شہری پیدل بارڈر کراس کر کے تجارتی مقاصد پورے کرنے کے بعد شام کو واپس آجاتے ہیں ۔
چھوٹی گاڑیاں بھی سرحد کے آر پار آتی جاتی ہیں ۔ زیادہ تر افغان باشندے تجارتی سامان لے کر پاکستانی علاقے میں داخل ہوتے ہیں۔
چمن بارڈر پر نیٹو کے لئے رسد پہنچانے والے کنٹینر بھی گزرتے ہیں۔
اس لحاظ سے یہ علاقہ بھرپور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز مانا جاتا ہے ۔
کشیدگی کہاں تک جائے گی؟
سپر لیڈ نیوز نے اس حوالے سے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا تو صوبائی وزیر داخلہ کے آفس سے حالات کنٹرول میں ہونے کی اطلاع ملی ۔
ذرائع کے مطابق علاقے کی صورتحال بدستور کشیدہ ہے ۔ دونوں جانب سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے ۔
یوں یہ واضح ہو رہا ہے کہ مغربی بارڈر بھی اب انتہائی خطرات کے بادلوں کی لپیٹ میں آرہا ہے ۔
پاکستانی دفتر خارجہ کےمطابق حکومت نے افغان سکیورٹی اور سفارتی حکام سے فوری رابطہ کر رکھا ہے ۔
موجودہ واقعہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ حکام کے مطابق گزشتہ ہفتے بھی پاکستان اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے ۔
اس دوران سرحدی چوکیوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جس کے بعد گزشتہ ہفتے بھی سفارتی سطح پر رابطہ کیا گیا ہے ۔
حالیہ واقعے نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے ۔ یہ کشیدگی کہاں تک جائے گی ؟
کیا مشرقی کے ساتھ اب مغربی بارڈر پر بھی فائرنگ کے واقعات دیکھنے کو ملا کریں گے ؟