کس سے کریں فریاد؟

منمیت کور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ عالمی امور، انسانی حقوق اور سماجی ایشوز پر لکھتی ہیں۔ انہیں ٹویٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے

ابھی اس دلخراش واقعے کے نقش ذہن میں تازہ ہیں پشاور سے ننکانہ صاحب اور بعد ازاں گوردوارہ سچاسودا جانیوالے سکھ یاتریوں کی کوسٹر شیخوپورہ کے قریب ٹرین کی زد میں آگئی۔ 

بیس سکھ یاتریوں سمیت 22افراد جاں بحق ہوئے ۔جن میں ایک ڈرائیور اور ایک کنڈکٹر بھی شامل ہے۔ اس واقعے کو میں ایک لمحے کے لئے فراموش نہ کر سکی ۔ تمام جاں بحق سکھوں کی میتیں سی 130جہاز کے ذریعے پشاور لائی گئیں ۔
یہاں پشاور میں میتوں کا آخری دیدار بھی ہو گیا۔ پشاور کے گوردوارہ بھائی جوگا میں غمزدہ خاندان سے تعزیت کرنے والوں کو تانتا بندھا ہوا تھا ۔

شیخوپورہ کے قریب حادثے میں مسافر بس مکمل تباہ ہو گئی

واقعہ  اتنا بڑا تھا کہ سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی ۔ غمزدہ خاندانوں کو مکمل تعاون کا یقین دلایا ۔ ابھی تعزیت کا سلسلہ جاری تھا کہ اسی دوران ایک اور سنگین مسئلہ سامنے آیا۔ جاں بحق سکھوں کی آخری رسومات پشاور  میں ادا نہیں کی جا سکتی تھیں۔
پشاور کے سکھوں کی آخری رسومات اٹک میں ادا کیوں کی جاتیں ہیں ؟؟؟
ہندو اور سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی آخری رسومات شمشان گھاٹ میں ادا کی جاتی ہیں ۔مگر پشاور میں ایسا کوئی انتظام نظر نہیں آتا۔

پشاور میں لگ بھگ دو سو سکھ خاندان آباد ہیں جو یہاں کئی دہائیوں سےرہ رہے ہیں ۔
محکمہ اوقاف مذہبی و اقلیتی امور نے اپنے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں 2016-17میں ایک منصوبہ شامل کیا ۔جس میں مسیحی قبرستان،  سکھ اور ہندو برادری کیلئے شمشان گھاٹ کیلئے اراضی حاصل کی جانی تھی ۔

ملک میں شمشان گھاٹ کی حالت زار انتہائی خراب ہے ۔ زیر نظر تصویر راولپنڈی کےایک شمشان گھاٹ کی ہے جس پر انتظامیہ نے کوئی توجہ نہ دی

پشاور میں شمشان گھاٹ کے لئے اراضی کا انتخاب کیا گیا۔ نجی اراضی کیلئے مالک سے بات بھی ہوئی ۔  محکمہ اوقاف نے اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر پشاور کو فنڈز بھی جاری کردیئے ۔

ہندوؤں اور سکھوں کی آخری رسومات میں رکاوٹیں

معاملہ اس وقت پیچیدہ ہوگیا جب علاقہ میں یہ اعلانات کرائے گئے کہ اس علاقے میں ہندو اور سکھوں کی آخری رسومات کے لئے شمشان گھاٹ تیار کیا جا رہا ۔

علاقے میں جب تعصبانہ اعلانات ہوئے تو شمشان گھاٹ کے لئے مختص کی جانے والی جائیداد کے مالک کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔یہاں تک کہ اس نے جگہ دینے سے معذدرت کرلی ۔

یہ  معاملہ ایک بار پھر کاغذات تک محدود ہو گیا۔ بات حکومتی سست روی کے شکار ہونے کے ساتھ معاشرتی رویوں کی بھی ہے ۔ پشاور سے کوہاٹ اور مردان تک  ہزاروں سکھ اور ہندو آباد ہیں ۔

وفات کے بعد میت کے ہمراہ میلوں کا سفر ۔۔

حیدر آباد کے ایک شمشان گھاٹ کی حالت زار : فوٹو کریڈٹ اے ایف پی

سوال یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کا انتقال ہو جائے تو وہ آخری رسومات کے لئے کہاں جائے ؟  بے حسی کی انتہا دیکھئے غمزدہ خاندانوں کو  میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔جس کے بعد آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں ۔

اس سے بڑی بے حسی کیا ہوگی؟ کیا کسی نے سوچا ان خاندانوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے جو اپنے پیاروں کی میتیں اٹھا کر دربدر ہوتے ہیں؟

بیس میتوں کی بیک وقت اٹک شمشان گھاٹ میں آخری رسومات کی ادائیگی کے مناظر انتہائی تکلیف دہ تھے۔
ٹرین حادثے کا یہ واقعہ مزید کرب میں مبتلا کر دیتا ہے ۔ ایک تو بیک وقت ایک ہی خاندان سے بیس افراد ابدی نیند سو گئے ۔ پھر ان کی میتوں کو انکے آبائی علاقوں میں جہاز کے ذریعے منتقل کیا گیا ۔

سب سے بڑا مرحلہ ڈیڑھ سو کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ طے کرکے شمشان گھاٹ پہنچنا تھا۔

یہ بھی پڑھیئے:کیا جنرل ضیا کی پالیسیاں واپس آرہی ہیں ؟


یہ غمزدہ خاندان کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں ۔ اس جگہ سے بے پناہ محبت ملی یوں اسی شہر کے ہوگئے ۔ وفات کے وقت چند لوگوں کی شدت پسندانہ  سوچ کی بھینٹ چڑھ گئے

انہی عناصر کی وجہ سے ایک شمشان گھاٹ  کے لئے جگہ تک  نہ مل سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائے