پر امن  لوگ جارحیت کے بھنور میں ۔۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں سکھوں کے ایک گرودوارے  کو  نشانہ بنایا گیا ہے ۔ دھماکوں کے نتیجے میں تین ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

کابل پولیس کے ترجمان خالد زردان کے مطابق حملوں میں سات سے آٹھ افراد زخمی ہیں ۔ زندگی کی بازی ہارنے والوں میں  ایک سکھ، ایک طالبان کا اہلکار اور ایک نامعلوم حملہ آور  شامل ہے ۔ کابل کے مقامی وقت کے مطابق دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ صبح چھ بجے شروع ہوا ۔ ایک ایسے وقت میں  دہشت گردی کا ہولناک کھیل کھیلا گیا جب لوگ دفاتر   اور کاروبار پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ تقریباً دس بجے تک صورتحال کشیدہ رہی اور فائرنگ ہوتی رہی جس سے یہ تاثر ملا کہ دہشت گرد پوری پلاننگ کے ساتھ آئے تھے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق دستی بموں کا استعمال کیا گیا ۔  جس مقام کو نشانہ بنایا گیا وہ دراصل ایک کمپاؤنڈ  کی طرح کی عمارت تھی جس میں 20 سے 25 سکھ خاندانوں کی رہائش بھی شامل تھی ۔ اسی سے متصل گورودوارہ بھی تھا۔ پولیس حکام کے مطابق مبینہ طور پر ایک بمبار نے بھی عبادت گاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ ناکامی پر اس نے خود کو اڑا لیا۔ یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ بمبار ان پچیس خاندانوں کی رہائش گاہ تک پہنچنا چاہتا تھا جہاں ان کے بچے اور خواتین بھی رہائش پذیر تھیں ۔ اگر یہ دہشت گرد ہدف تک پہنچ جاتا تو بہت بڑی تباہی  ہونا تھی ۔

حملے کے بعد سکھ عبادت گاہ میں تباہی کا منظر۔ فوٹو کریڈٹ :رائٹرز

جائے وقوعہ پر  ایک مقامی اہلکار گرنام سنگھ  بھی تعینات تھے ۔ گرنام نے بتایا گرودوارے کے اندر تقریباً 30 افراد موجود تھے۔ اگر بمبار داخل ہو جاتا تو سب کی زندگی خطرے میں تھی ۔

یہ عمارت دارالحکومت میں سکھوں کا آخری گرودوارہ ہے۔ اس سےپہلے تمام عبادت گاہیں بند کی جاچکی ہیں۔  سکھ برادری کے رہنماؤں کے مطابق  مسلمان اکثریتی افغانستان میں اب صرف 140 سکھ رہ گئے ہیں جو بھارت جانے کی کوششوں میں ہیں  مگر ان کے ویزے نہیں لگ رہے ۔

 واضح رہے کہ  1970 کی دہائی  میں ایک لاکھ کے قریب سکھ افغانستان میں آباد تھے ۔ طالبان نے اپنے سابق دور حکومت میں بھی سکھ برادری کو نشانہ بنایا تھا اس کے بعد مسیحی برادری کی بھی ٹارگٹ کلنگ عام رہی ۔ اشرف غنی دور حکومت میں موجودہ افغان طالبان بھی حملے کرتے رہے ہیں مگر ان کے اقتدار میں آنے کے بعد کالعدم داعش نے سر اٹھایا اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔

اس وقت افغانستان کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے ۔ سکھ، مسیحی افراد کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے ۔ لیکن ظلم کی انتہا ہے کہ پھر بھی کوئی بھی حکومت ہو اقلیتوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ۔ میں پاکستان بالخصوص پشاو ر میں سکھ کمیونٹی کو درپیش خطرات سے آگاہ کرتی رہتی ہوں اور دی سپرلیڈ ڈاٹ کام کے پلیٹ فارم سے بھی اقلیتوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کرچکی ہوں مگر اس ظلم اور بے بسی کے آگے سب خاموش ہیں ۔

پشاور میں بھی سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی ہے ۔ ایسے حالات  میں کتنی گرفتاریاں ہوئیں کسی کو نہیں  معلوم ۔ ۔صاف ظاہر ہے قانون خاموش ہے یا پھر  خاموش رہنے کی کوشش کر رہا ہے ۔  اب اسی طرح افغانستان میں بھی شاید یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اقلیتوں پر زمین تنگ کی جائے گی ۔ کابل حملہ ہولناک ہے ۔ دعا ہے وہاں مقیم سکھ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب رہیں ۔