دِن سبز ریشمی جوتوں میں رقص کرتا ہے

تحریر : برگیٹےوالوینے (ڈنمارک)

ڈینش زبان سے براہ راست ترجمہ : نصر ملک ۔ ڈنمارک

کشمیر میں بہار ہی بہار ، پھولوں سے بھری وادیاں، روح کو معطر کرتی ، درجنوں قسم رنگ برنگے قدرتی پھولوں کی خوشبو ، ایک نواجوان کشمیری دہقانی لڑکی بہت سے زیورات اور چمکدار رنگ کے کپڑے پہنے ایک پہاڑی ڈھلوان پر بھیڑوں کے گلّے کی نگرانی کر رہی ہے ۔

اپنی بھیڑوں کی دیکھ بال کرتے ہوئے وہ گنگناتی ہے :ہاں! آج میرا دن ہے ۔ یہ سنہری ٹوپی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے ۔ یہ مجھے یہاں گلمرگ کی پہاڑیوں پر ملتا ہے، یہ مجھے مسرور کرتا ہے، مدہوش کرتا ہے ۔ یہاں میں اپنی طلائی خوشیوں کے ساتھ ناچتی ہوں، ہنستی ہوں ، گنگناتی ہوں، گاتی ہوں ‘‘ ۔ میرا باپ اُون سے منسوب ہے اور اس کے کاٹے جانے کے لیے منتظر ہے ‘‘۔’’ہاں، سُن! اب جو میں تجھے کہنے والی ہوں، اے میرے دن، اگر تو صحرا کی ریت میں اٹا پٹا ہو تو پھر بھی تو میری نظروں میں ہمیشہ وادیٔ کشمیر کے پھولوں کا لباس اور سنہری کناروں والی ٹوپی پہنے دکھائی دے گا ۔

کیا تم جانتے ہو، ایسا کیوں ہے، اے میرے دِن؟ ہاں ، اس لئے کہ میرا گھڑی میں، عین انہی لمحوں میں، میراکانکا میری بھیڑوں کی اُون کترنے کے لیے آنے والا ہے ۔ اور یہ بھی کہ آج ہی اُس کا باپ میرے باپ کے پاس جانے اور اُس سے پوچھنے والا ہے کہ کیا میرے زیورات اُس گھر کو بھی روشن کر سکتے ہیں جو اُس کا بیٹا میرے لئے بنائے گا۔ تو اے میرے پیارے دن، یہی تو بات ہے کہ جب تم اپنے سبز ریشمی جوتوں میں غروب آفتاب کی طرف وادیوں میں چل رہے ہوتے ہو تو میں گنگناتی ہوں ، گاتی ہوں‘‘ ۔’’اے میرے دن، وہ میرا کانکا کب آئے گا؟ جلدہی ؟ جلدہی؟ اے دن، اپنے جوتوں والے قدموں کو تیز تیز اُٹھا، اتنا تیز کہ وہ آگے بڑھیں ، اور آگے بڑھیں! اب امید کی مٹھاس میرے دل کی دھڑکن تیز کر رہی ہے، اے میرے دن، اگر تو یکدم جلدی کرے توبہت ہی شاندار ہو گا ، اے میرے دن، اگر تمھاری سنہرے کناروں والی رتھ کے آگے جُتے ہوئے گھوڑے بھی سرپٹ دوڑیں ، تیزی دکھائی تو شاید ت تم تمام پھولوں،تمام بھیڑوں، تمام جانوروں کی شبنمی آنکھوں کو چوم سکتے ہو‘‘۔’’اے میرے دن، اب جب تمھاری پرچھائیوں کے نیلے سائے پہلے ہی واپس جانے والے ہیں اور تم نے اپنے تیز گھومنے پھرنے کو چھپانے کے لیے، صبح کے آسمان کو بادلوں میں بدل دیا ہے، دیکھ پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کیسے جواہرات کی طرح چمکتی ہے ! پٹی کی بھولی بسری وادیوں میں بھی، وقت کے پیچھے، تو اپنی ساری شان و شوکت دکھاتا ہے ۔ اوہ دن ، وہ تجھے اپنی شاندار سنہری رتھ میں آگے بڑھنے کے لیے بہترین لباس پہناتے ہیں ! تم اچھی طرح جانتے ہو کہ سبز ریشم کے جوتے صبح کے نیلے سائے کے ساتھ جاتے ہیں ‘‘۔’’اوہ، دن، اب تمھیں دس گھنٹے ہو چکے ہیں ۔ اور اب میرا کانکا آنے والا ہے ۔

وہ وادی کی گہرائی میں بہت چھوٹا لگتا ہے ۔ مجھے آج اُس سے ملنے کے لیے اُڑنا ہے ۔ یہ برا

ہے، تم میرے قابل فخر، پیارے دن اب دوسری طرف رخ پھیر رہے ہو اور اب تو تمھارا ساتھ میری خوشی کے لیے کافی نہیں ہے ۔ جب تک میں واپس نہیں آؤں گے، میری نرم و ملائم اُون والی بھیڑیں،یہیں خاموش کھڑی رہیں گی ۔ اب میں اُڑتی ہوں، سارے پھول مجھ پر مسکراتے ہیں ۔ دن چاہے رات میں بدل جائے، وہ میرا کانکا ، ہمیشہ پھولوں کی خوشبو سےبھرے سبز ریشمی جوتوں میں ملے گا‘‘ ۔’’اب وہ اتنا قریب ہے کہ میں اُس کی پر مسرت آنکھیں دیکھ سکتی ہوں ۔ اپنی ناک میں اس کی خوشبو محسوس کر سکتی ہوں ۔ لیکن جشن میں پہننے والا اُس کا لباس کہاں ہے؟ اے سبھی دنوں کے خدا، اُس کے پاس جشن کا لباس نہیں ہے ! وہ اپنے پرانے ، سرمئی چیتھڑوں میں آتا ہے ۔ وادی میں روشنی ختم ہو گئی ہے ۔

اے دن ، کیا تو نے پوری طرح مجھ سے منہ موڑ لیا ہے ؟‘‘’’شاید وہ چاہتا ہے کہ میں یہ جان سکوں کہ اس کے لیے، جشن کا لباس صرف آج کے سرمئی چیتھڑے ہی ہیں ۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آخر وہ میرا اور میری بھیڑوں کا بہترین دوست ہے ۔ میرا پیارا کانکا، کانکا، دیکھ، دیکھ کانکا، میں تیری جانب دوڑ رہی ہوں ۔ حالانکہ ٹھنڈی یخ ہوا میرے دل کو منجمد کر سکتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ برفیلے پہاڑ بھی تیرے جشن کے لباس کی طرح سرمئی ہو گئے ہیں ‘‘۔’’پرندے اضطراب کی طرح چہچہاتے ہیں ، اتنی عجیب کوشش کی ہے تم نے ، مجھے بتاؤ کانکا ، میرے کانکا بتاؤ، کیا تم اپنی گرم چائے سے میرے دل میں خوشخبری کی نوید لاتے ہو ؟ ہمارا دن تو سنہری کناروں والی رتھ میں اُڑ گیا اور رات اس کی پیروی کرے گی ۔

مجھے بتاؤ، تم اپنے ساتھ میرے لئے کیا لائے ہو، تم میری کامیابی کی امید رکھتے ہو ؟ تمھاری آنکھوں میں برف کیوں ہے، اور تمھارا منہ سوکھے سانپ جیسا سخت کیوں ہے؟ سردی میں تم میرے ساتھ میری بھیڑوں تک چلو، اپنی بڑی قینچی لے لو اور بھیڑوں کی اُون کترنا شروع کردو ‘‘۔’’اوہ، اب یہ سب میرے لئے بڑا واضح ہے۔ تم مجھے وقت پر سکھاؤ گے کہ کام کے بعد کھیل آنا چاہیئے ۔ میں تمھاری قدر کرتی ہوں،

کانکا، تم بہت عقلمند ہو ۔ میں اپنے بیٹوں کو بھی یہی سکھاؤں گی کہ اُن کا باپ کتنا عقلمند تھا، میرایقین کرو، کانکا، میں ایسا کروں گی، میں اُن کو سکھاؤں گی کہ اُن کا باپ اتنا عقلمند تھا ‘‘۔’’ہو سکتا ہے، تمھارے پاس تمھارا جشن کا لباس اور تمھاری بانسری تمھارے کاندھے والے تھیلے میں ہو ۔ جب کام ختم ہو جائے گا تو تم میرے لئے اپنی بانسری بجانا، پھر اس طرح تمھاری طرف سے خوشی کی بات مجھ تک پہنچے گی ۔دیکھو کانکا میرے پاس تمھارے لئے ایک گرم چپاتی ہے ۔ صبح سویرے میں نے اسے رات کی آگ سے پتھروں کے نیچے رکھ دیا تھا، تاکہ یہ اتنی ہی گرم رہے جتنا میرا دل تمھارے لئے گرم ہے ۔تم نے پہلے کبھی اتنی جلدی اُون نہیں کاٹی ۔

تم شائد مجھے دکھاؤ گے کہ خیمے میں بیٹوں کا انتظار کرنے والا آدمی اس طرح کام کرتا ہے‘‘ ۔’’جلد ہی تم کام ختم کر لو گے ۔ تم شاید آج رات یہیں ٹھہر جاؤ اور آنے والے دنوں میں ہماری خوشیوں کےبارے میں بتاؤ ۔ اب آخری بھیڑ موسم کی ہوا میں جمی کھڑی ہے ۔ مجھے اب کوئی ٹھنڈ، سردی نہیں لگتی ۔ تمھاری مہارت دیکھ کر میں خود کو گرم محسوس کرتی ہوں ۔ تم پوری دنیا میں ذہین ترین آدمی ہو ۔ وادیوں میں تم جیسا کوئی چرواہا نہیں ۔

یہ میں تبھی جان گئی تھی جس دن میں نے پہلی بارتمہیں دیکھا تھا ، تب تم نے پہلی بار میری بھیڑوں کی اُون کتری تھی ۔ مجھے تمھارے بارے میں سب کچھ معلوم تھا، کانکا، اور تب سے میں نے اپنے آپ کو صرف تمھارے لیے سجا رکھا ہے ‘‘ ۔کانکا، اب تم نے کام ختم کر لیا ہے ۔ میں تمھارے قدموں پر پھول رکھتی ہوں،

یہ تمھیں بتائے گا کہ میں تمھیں اپنی زندگی میں ہر روز پھول دوں گی ۔ متشدد نہیں، نہیں، نہیں، زہریلے پیلے پھول بھی نہیں ، بالکل نہیں، ہر ایک شام جب تم اپنے قدموں سے بیتابی کے ساتھ ہمارے خیمے کی طرف دورتے ہو تو صحت مند بیٹے اور اچھی چپاتی کے حقدار ہوتے ہو ‘‘۔’’پھر تم اپنے بیٹوں کو اپنے بازوؤں سے اوپر اٹھاؤ گے، اور ہاں تمھیں کہنا پڑے گا کہ ’’ مجھے بیوی اور بیٹے ملے ہیں، میں دیوتاؤں کا پسندیدہ ہوں‘‘،۔۔۔۔۔۔

کانکا، ہم سب مل کر تمھارے لئے اتنا اچھا کریں گے کہ صبح ہوتے ہی جب تم اٹھو گے تو سوچو گے کہ ہمارے ساتھ رہنا کتنا اچھا ہے ۔۔۔۔ کانکا، تم مجھے ٹھنڈی راتوں میں گرم کرتے ہو اور گرمی کے دنوں میں راحت بخش ٹھنڈپہنچاتے ہو‘‘***جیوتس کا دل اچانک بے نام خوف سے گھبرا گیا ۔ کانکا کیا کر رہا تھا؟ کیا اُس نے ڈھیر سے اُون لے کر، اپنے کام کی اُجرت کے طور پر اسے اپنی بوری میں نہیں ڈالا؟ آخر کار اُس نے لاپرواہی اختیار کی، اور سمجھا کہ یہ اُس کے لیے کافی ادائیگی تھی ۔ اب اُس نے تسلی کے لیے بوری کو بڑے پتھر کی طرح سختی سے دبا یا ، یہی اُس کے لیے کافی تھا ۔کیا ہوا تھا؟ اُس میں یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی، اور نہ ہی وہ مزید کوئی واضح سوچ بنا سکی ۔

ایک مون سونی موسمی لہر اتنے زور سے اس کے دل میں آئی اور اسے لگا کہ جیسے کوئی پہاڑ اُس پر آن گرا ہے ، آبشاروں کی دھیمی اور سریلی گائیکی طنز میں بدل گئی ۔بے ساختہ اُس نے اُس کی طرف دیکھا اور کہا کہ وہ پیار کرتی ہے ۔ اب بوری میں مزید اُون بھرنے اور بوجھ بڑھانے کی ضرورت نہیں تھی ۔جیوتس کو اچانک احساس ہوا کہ اُس نے اُون کٹوانے کے لیے ، ادائیگی کے طور پر اتنی اُون پہلے کبھی نہیں دی تھی ۔’’کیوں، تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ ‘‘

وہ مایوسی سے پھٹ پڑی ۔کانکا نے کوئی جواب نہ دیا ، لیکن اُس کے سامنے اپنی اُون والی بوری رکھ کر دوبارہ گاؤں جانے کی تیاری کی۔اور جب وہ اُس سے چند قدم دور ہو گیا تو بڑے اطمینان سے بولا:’’گاؤں میں پچھلے سال مجھے موگل کے حوالے کر دیا گیا تھا اور تجھے پابون کو دے دیا گیا تھا۔ اگلے چاند ماہ میں ہمیں جشن میں جانا تھا ۔ دیوتاؤں کا کہنا تھا کہ اِس کے بعد شادی کے لیے سب سے موزوں وقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم دونوں شادی کرتے ہیں، تو ایک بڑی آفت گاؤں کو اپنے نرغے میں لے لے گی اور پورے گاؤں میں طاؤن پھیل جائے گا اور گاؤں کھنڈرات میں بدل جائے گا، کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے سانپ کے زہر کی طرح ہیں ۔اور اگر ہم اکٹھے ہو گئے تو جذام اور کئی دیگر موذی بیماریاں ہماری آنے والی پیڑیوں میں داخل ہو جائیں گی ‘‘۔پھر وہ کچھ کہے بولے بغیر بھورے گیڈر کی وادی کی ڈھلان میں غائب ہو گیا۔

اب پہاڑوں کے سائے تقریباً مکمل سیاہ ہو چکے تھے اور جیوتس کے دل میں بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ مونڈی ہوئی بھیڑیں اُس کے گرد یوں گھوم رہی تھیں جیسے وہ رات کی چلنے والی ٹھنڈی ہوا سے پناہ لینا چاہتی ہوں ۔ وہ جمائیاں لے رہی تھیں اور سخت تھکی ہوئی تھیں ۔جیوتس کے حلق سے ایک گانا پھوٹ پڑا اور اُس کی آنکھوں سے سنہری روشنی چمکنے لگی ۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے آس پاس کی چیز پہاڑی چوٹیوں کی طرح سرد اور ویران ہو گئی ہے ۔

اس نے اپنے آپ کو اُون میں چھپا لیا اور اُس رات وہ کافی گرم سوئی، لیکن پھر بھی اس نے محسوس کیا کہ اُس کے اندر اور اُس کے ارد گرد ٹھنڈزیادہ ہوتی جا رہی ہے ۔پھر جب دن وادی میں رقص کرنے لگا تو وہ اس کا سامنا نہ کر سکی ، اور اس نے اِس سے منہ پھیر لیا اور خود کام کرنے لگ گئی ۔دن نکلتے رہے، دن ڈوبتے رہے ۔

جیوتس ایک ہنر مند اور ذہین عورت تھی ، اُس کے ہاں صحت مند بیٹا ہوا ، اور پھر دوبارہ بھی صحت مند بیٹے پیدا ہوئے ۔اب وقت آنے پر جیوتس کسی انجان طرف کو جانے والی تھی اور ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے کو منور کر رہی تھی ۔ اُس نے سرگوشی کی:’’ تم ہی تو ہو اب یہاں، اے میرے دن، سبز ریشمی جوتوں اور سنہری ٹوپی میں ، یہ تم ہی تو ہو!‘‘ ۔یہاں واقعی کسی نے اُس کی بات نہیں سنی تھی کہ اُس نے کیا کہا تھا۔ آخر وہ تو بس ایک بوڑھی ، بیکار عورت تھی، جسے اپنے راستے پر جانا تھا ۔طلوع آفتاب کی طرف وہ اُسے شمشان گھاٹ لے گئے، لیکن انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس کی ارتھی کے آگے آگے ، دن سبز ریشمی جوتوں میں ناچ رہا تھا ۔

Original Title: DAGEN DANSER I GRØNNE SILKESKO

Written by

Birgitte Valvanne (1899-1979) was a Danish visual artist and writer. Throughout her life, she traveled to parts of Asia that few Westerners had visited in her time, including the previously closed country of Nepal. From her further travels to other countries such as Indonesia, Thailand, Burma and India, she collected objects for a museum at the parsonage where she lived in Ronæs. In addition, she wrote a number of books about her travels, in which she described with rare insight a hitherto unknown world for the Danes.