عنايات الزيات نے ایک بدطبع اور بدخلق آدمی سے شادی کی تھی، اور اس سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ پھر طلاق ہو گئی اور بیٹا سات سال تک اس کے ساتھ رہا۔ بعد میں، بیٹے کی پرورش کی ذمہ داری اس کے والد کو دے دی گئی۔ بیٹا اپنے والد اور سوتیلی ماں سے ملنے جایا کرتا تھا، جہاں وہ اسے ہمیشہ اس کی ماں "عنايات” کے خلاف بھڑکاتے تھے۔ جب بیٹا اپنی ماں کے گھر سے جاتا تو خوش ہوتا، مگر واپسی پر اس کے دل میں ماں کے لیے نفرت بھر جاتی۔ یہاں تک کہ وہ اسے "ماں” کہنے سے بھی انکار کر دیتا تھا۔
بیٹے کی پرورش کی ذمہ داری والد کو ملنے کے بعد، وہ کچھ بڑا ہوا مگر اس کی نفرت بڑھی ہی رہی۔ ایک دن جب وہ والد کے گھر سے واپس آیا تو عنايات نے اسے گلے لگانے کے لیے اپنی بانہیں پھیلائیں، مگر اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا: "کیسی ہو، خالہ؟”
اس واقعے کے بعد، عنايات شدید اداسی میں مبتلا ہو گئی اور اپنی ڈائری میں لکھا:
"ہم کسی کے مالک نہیں اور نہ کوئی ہمارا مالک ہے۔ زندگی بدلتی رہتی ہے، لوگ بدلتے رہتے ہیں، اور کچھ بھی ہمیشہ نہیں رہتا، حتیٰ کہ بچے بھی نہیں۔
وہ بچے بھی نہیں جنہوں نے ہمارے اندر جنم لیا،
جو ہمارے خون پر پل کر بڑے ہوئے،
جن کی پیدائش کی اذیت ہم نے برداشت کی،
یہاں تک کہ وہ بچہ بھی نہیں جو میری کچھ صفات اور میرے چہرے کے نقوش کا حامل ہے،
یہاں تک کہ وہ بچہ بھی نہیں جس کی مسکراہٹ میری مسکراہٹ ہے،
اور جس کی چھوٹی ٹیڑھی انگلی میری انگلی جیسی ہے،
یہاں تک کہ وہ بچہ بھی نہیں جسے میں نے دودھ کے ساتھ اپنی محبت بھی پلائی،
یہاں تک کہ وہ بچہ بھی نہیں جس کی نیند کے لیے میں نے بے خوابی برداشت کی،
یہاں تک کہ وہ بھی بدل جاتا ہے،
یہاں تک کہ وہ بھی مجھے بھول جاتا ہے،
اس نے ابھی زندگی دیکھی ہی نہیں۔”
کچھ ہی عرصے بعد، اس الفاظ ” کیسی ہو، خالہ ” کے بعد، عنايات نے اپنی جان لے لی۔
یہ کہانی مشہور مصنفہ عنايات الزيات کی ہے، جنہوں نے صرف ایک ناول "محبت اور خاموشی” لکھا، جو ان کے مرنے کے ایک سال بعد شائع ہوا




