الیاس اور بیوی کی خوشی

مصنف : لیو ٹالسٹائی (روس)

مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

ایک زمانے میں حکومت اوفہ میں الیاس نامی ایک بشکیر ( مسلمانوں کی ایک نسل جو ترکی زبان بولتے تھے ) رہتا تھا ۔ اس کا باپ اس کی شادی کروانے کے ایک سال بعد مر گیا تھا ۔ اس نے اپنے بیٹے کے لئے کوئی خاص جائداد نہیں چھوڑی تھی۔اس وقت الیاس کے ہاس صرف سات گھوڑیاں ،دو گائیں اور بیس کے قریب بھیڑیں تھیں ۔ چونکہ وہ ایک اچھا منتظم تھا ،اس لئے وہ تیزی سے اس میں اضافہ کرنے لگا ۔ وہ اور اس کی بیوی صبح سے رات گئے تک کام کرتے : دوسروں سے پہلے جاگتے اور سب سے آخر میں بستر پر جاتے ۔ اس طرح اس کی ملکیت میں سال بہ سال اضافہ ہوتا گیا ۔ اس طرز زندگی کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کرتے الیاس نے کافی دولت اکٹھی کر لی ۔ پینتیس سال بعد اس کے ہاس دو سو گھوڑے ، ایک سو پچاس مویشی اور بارہ سو بھیڑیں تھیں ۔ کراۓ پر رکھے گئے ملازم اس کے ریوڑ چراتے ،اور کراۓ پر رکھی عورتیں اس کی گھوڑیوں اور گائیوں کا دودھ دو ہنے کے ساتھ کو مس ( گھوڑی کا خمیر شدہ دودھ ) ،مکھن اور پنیر تیار کرتیں ۔ الیاس کے پاس ہر چیز کی فراوانی تھی ۔ضلع میں ہر کوئی اس پر رشک کرتا اور لوگ اس کے بارے میں کہتے ،

“ الیاس خوش قسمت ہے ،اس کے پاس سب کچھ وافر ہے ۔یہ دنیا اس کے لئے خوشگوار جگہ ہونی چاہیے ۔ “

صاحب حیثیت لوگوں نے جب الیاس کے بارے میں سنا تو اس سے شناسائی پیدا کرنے لگے ۔ لوگ دور دور سے اس کے پاس آتے اور وہ ہر ایک کا استقبال کرتا ،انہیں کھانا پینا مہیا کرتا ۔ جو بھی آ جاتا اس کے سامنے پیش کرنے کے لئے کومس، چاۓ ،شربت اور مٹن (بھیڑ ، بکرے کا گوشت ) موجود ہوتا ۔ جب بھی ملاقاتی آتے تو ایک بھیڑ اور بسا اوقات دو بھیڑیں ذبح کی جاتیں اور اگر بہت زیادہ مہمان آ جاتے تو وہ ان کے لئے گھوڑی بھی ذبح کر دیتا تھا ۔

الیاس کے تین بچے تھے : دو بیٹے اور ایک بیٹی ، اور وہ سب کی شادیاں کروا چکا تھا ۔جب وہ غریب تھا تو اس کے بیٹے اس کا ہاتھ بٹاتے تھے ،ریوڑوں کی دیکھ بھال کرتے ،لیکن جب وہ امیر ہوا تو وہ بگڑ گئے ۔ ایک نے شراب نوشی شروع کر دی ،سب سے بڑا ایک جھگڑے کے دوران مارا گیا ،اور چھوٹا جس نے ایک خود سر عورت سے شادی کی تھی ، باپ کا نافرمان ہو گیا ، اس طرح اکٹھے رہنا مشکل ہو گیا ۔

اور وہ علیحدہ ہو گئے ، الیاس نے بیٹے کو ایک گھر اور کچھ مویشی دیے ،جس سے اس کی دولت میں کمی واقع ہو ئی ۔ اس کے کچھ عرصے بعد الیاس کی بھیڑوں میں کوئی بیماری پھوٹ پڑی ،جس سے بہت ساری بھیڑیں مر گئیں ۔اس کے بعد فصل خراب ہو گئی اور بھوسا بھی نہ حاصل ہو سکا ؛ جس سے بہت سارے مویشی اس موسم سرما میں مر گئے ۔اس کے بعد قازقستانیوں نے اسے کے بہترین گھوڑوں کا غول پکڑ لیا ،اس طرح الیاس کی جائداد کم ہونے لگی ۔ یہ چھوٹی سے چھوٹی ہوتی چلی گئی ۔ اس کے ساتھ اس کی توانائی بھی کم ہونے لگی ؛ یہاں تک کہ جب وہ ستر سال کا ہوا تو اس نے اپنے قالین ، کھالیں ، زینیں اور خیمے بیچنے شروع کر دیے ۔ آخر کار اسے اپنے باقی ماند مویشیوں سے بھی الگ ہونا پڑا اور مفلسی کا سامنا کرنا پڑ گیا ۔ اس سے قبل کے اسے پتہ چلتا کہ یہ سب کیسے ہوا وہ سب کچھ کھو چکا تھا اور بڑھاپے میں اسے اور اس کی بیوی کو دوسروں کی خدمت کرنی پڑ گئی ۔ الیاس کے پاس کچھ نہیں بچا تھا ماسواۓ اس کے تن کے کپڑوں ،ایک فر / کھال کا چوغہ ،ایک پیالہ ، گھر کے اندر پہننے کے جوتے اور اوور شوز ( جوتوں کے اوپر انکی حفاظت کے لئے پہننے والے جوتے ) ،اور اس کی بیوی، شام شماگی ، جو اس وقت خود بوڑھی تھی ۔ جو بیٹا ان سے علیحدہ ہو گیا تھا وہ کسی دور دراز کے ملک میں جا بسا تھا ،اس کی بیٹی مر چکی تھی ۔اس طرح اس بوڑھے جوڑے کی مدد کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔

ان کے ہمساۓ محمد شاہ کو ان پر ترس آ گیا ۔ محمد شاہ نہ تو امیر تھا اور نہ ہی غریب ،بس آرام سے گزر بسر کرتا تھا اور اچھا انسان تھا ۔ اسے الیاس کی میزبانی یاد تھی ،اس نے ترس کھاتے ہوے کہا : “ الیاس ،تم اور تمہاری بوڑھی عورت میرے ساتھ رہ سکتے ہو ۔ گرمیوں میں تم اپنی ہمت کے مطابق میرے خربوزوں کے باغ میں کام کر سکتے ہو ، اور سر دیوں میں مویشیوں کو چارہ کھلا سکتے ہو ۔ شام شماگی گھوڑیوں کا دودھ دو ہنے کے ساتھ کومس تیار کر سکتی ہے ۔میں تم دونوں کے کھانے اور کپڑوں کا ذمہ دار رہوں گا ۔جب بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو مجھے بتانا میں مہیا کردوں گا ۔

الیاس نے ہمساۓ کا شکریہ ادا کیا اور دونوں میاں بیوی اس کی ملازمت میں چلے گئے ۔ شروع میں تو انہیں یہ سب مشکل لگا لیکن پھر عادی ہو گئے ، اور جتنی ہمت کر سکتے تھے اتنی محنت کرنے لگے ۔

محمد شاہ کو بھی ایسے لوگ رکھنے میں فائدہ نظر آیا ،کہ وہ خود مالک رہ چکے تھے اس لئے انہیں انتظام و انصرام کا علم تھا اور وہ سست اور نکمے بھی نہیں تھے ،بلکہ جتنا کام کر سکتے ،کرتے تھے ۔ تاہم اتنے باعزت لوگوں کی اس حالت پر محمد شاہ دُکھی ہو جاتا تھا ۔

ایک دفعہ کیا ہوا کہ محمد شاہ کے کچھ رشتہ دار بہت دور سے اسے ملنے آ گئے ۔ اور ایک ملا بھی آ گیا ۔ محمد شاہ نے الیاس کو ایک بھیڑ پکڑنے اور ذبح کرنے کا کہا ۔ الیاس نے بھیڑ کی کھال اتاری اور اسے ابال کر مہمانوں کو بھیج دی ۔ مہمانوں نے بھیڑ کا گوشت کھایا ، کچھ چاۓ پی اور پھر کومس پینے لگے ۔ جب وہ قالین پر فرشی گدیوں / کشن / مسندوں پر میزبان کے ساتھ بیٹھ گئے اور اپنے پیالوں سے کومس پیتے ہوۓ محو گفتگو تھے ،تو الیاس اپنا کام ختم کر کے کھلے دروازے کے آگے سے گزرا ۔محمد شاہ نے اسے گزرتے دیکھا تو اپنے ایک مہمان سے پوچھا ،

“ کیا تم نے اس بوڑھے شخص کو دیکھا جو ابھی ابھی گزرا ہے ۔ ؟”

“ جی ہاں ، اس میں کیا خاص بات ہے ؟ “ مہمان نے جواب دیا ۔

“ صرف اتنی کہ وہ کبھی ہم سب میں امیر ترین تھا ۔ “ میزبان نے انہیں بتایا ۔ “ اس کا نام الیاس ہے۔ آپ نے شاید سنا ہو ۔ “

“ بلکل میں نے سنا ہوا ہے ،” ایک مہمان نے کہا ،” میں نے پہلے اسے دیکھا نہیں تھا ،لیکن اس کی شہرت دور و نزدیک ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی ۔ “

“ ہاں ،اور اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا “ ۔ محمد شاہ نے کہا ، “ اب میرے پاس ملازم کے طور پر رہتا ہے ۔ اس کی بوڑھی بیوی بھی یہیں ہے ۔وہ گھوڑیوں کا دودھ دوہتی ہے ۔”

مہمان ششدر رہ گیا ۔ اس نے اپنی زبان سے کلک کی آواز نکالی ،سر ہلایا اور کہا ، “ خوش قسمتی پہیے کی طرح گھومتی ہے یا یوں کہیں نصیب کا پہیہ گھومتا ہے ۔ ایک شخص کو اوپر اٹھاتا ہے تو دوسرے کو نیچے اتارتا ہے ! کیا بوڑھا شخص سب کچھ گنوانے پر رنجیدہ رہتا ہے ؟ “

“ کون بتا سکتا ہے ؟ وہ خاموش اور پرسکون رہتا ہے اور کام اچھا کرتا ہے ۔ “

“ کیا میں اس سے گفتگو کر سکتا ہوں ؟ “ مہمان نے پوچھا ۔ “ میں اس سے اس کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہوں گا ۔ “

“ کیوں نہیں ؟ مالک نے جواب دیا ، اور اس نے Kibitka / کبتکا ( حرکت پزیر رہائشی چھتری نما بند گاڑی یا خیمہ ) سے جہاں وہ بیٹھے تھے آواز دی ،” بابے ( بشکیر زبان میں بمعنی دادا) اند آ جائیں اور ہمارے ساتھ کومس کا پیالہ پئیں ،اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے آئیں ۔ “

الیاس اپنی بیوی کے ہمراہ اندر داخل ہوا ،مہمانوں اور مالک سے دعا سلام کے بعد اس نے کوئی دعا پڑھی اور دروازے کے قریب بیٹھ گیا ۔ اس کی بیوی پردوں کے پیچھے مالکن کے پاس بیٹھ گئی ۔

کومس کا پیالہ الیاس کو پکڑایا گیا ،اس نے مہمانوں اور مالک کو اچھی صحت کی دعا دی تعظیما” جھکا اور گھونٹ بھرا اور پیالہ نیچے رکھ دیا ۔

“ اچھا تو بابا ،” مہمان جس نے گفتگو کی خواہش کا اظہار کیا تھا نے کہا ،” میرا خیال ہے آپ ہمیں دیکھ کر اداس ہوۓ ہیں ۔ آپ کو اپنی سابقہ خوشحالی اور موجودہ تکالیف یاد آ گئی ہو ں گی ۔ “

الیاس مسکرایا اور بولا ،

“ اگر میں آپ کو بتاؤں کہ خوشی کیا ہے اور بد قسمتی کیا ہے تو آپ میرا یقین نہیں کریں گے ۔بہتر ہوگا اگر آپ میری بیوی سے پوچھیں ۔ وہ عورت ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے وہی اس کی زبان پر ہے ۔وہ آپ کو سچ سچ بتاۓ گی ۔ “

مہمان نے پردوں کی طرف رخ کیا اور زرا اونچی آواز سے پوچھا ، “ اماں جی ،مجھے بتائیں آپ کی سابقہ خوشی کا موجودہ بدقسمتی سے کیسے مقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ “

تب شام شماگی نے پردے کے پیچھے سے جواب دیا ، “ میں کچھ اس طرح سوچتی ہوں : میں اور میرا بوڑھا آدمی پچاس سال خوشی ڈھونڈتے رہے لیکن نہ ڈھونڈ سکے ۔اب جب کہ پچھلے دو سالوں سے ہم سب کچھ گنوا کر ملازم بن چکے ہیں تو ہمیں حقیقی خوشی ملی ہے ۔ ہم اپنی موجودہ حالت سے بہتر کچھ نہیں چاہتے ۔”

مہمان حیران ہو گئے اور یہی حال مالک کا بھی تھا ،بلکہ وہ اٹھا پردے پیچھے کیے تا کہ بوڑھی عورت کا چہرہ دیکھ سکے ۔وہ وہاں ہاتھ باندھے کھڑی اپنے بوڑھے خاوند کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔ خاوند اسے دیکھ کر مسکرایا ۔بوڑھی عورت نے بات جاری رکھی ۔

“ میں سچ بیان کر رہی ,مذاق نہیں کر رہی ۔آدھی صدی تک ہم خوشی کی تلاش میں رہے اور جب تک ہم امیر تھے یہ ہمیں نہیں ملی ۔اب جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں اور ملازمت کر لی ہے تو ہمیں ایسی خوشی ملی کہ اب ہمیں اس سے بہتر کچھ نہیں چاہیے “ ۔

“ لیکن آپ کی خوشی کس میں ہے ؟ “ مہمان نے پوچھا ، “ اس حالت میں کیوں ؟ “ اس نے جواب دیا ، “ جب ہم امیر تھے تو ہم میاں بیوی کو بہت ساری فکریں تھیں ، جن کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا ۔نہ ہی اپنی روح کے لئے نہ خدا کی عبادت کے لئے وقت ہوتا تھا ۔ تب ہمارے ملاقاتی بھی تھے اور سوچنا پڑتا تھا کہ انہیں کیا کھانا دینا ہے ،کیا تحائف دینے ہیں ,ایسا نہ ہو کہ وہ ہماری برائی کریں ۔

جب وہ چلے جاتے ، تو ہمیں اپنے ملازمین کا خیال رکھنا ہوتا تھا ,جو کام سے جی چراتے تھے اور بہترین کھانا کھاتے تھے ، جب کہ ہم ان سے جتنا ہو سکتا حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ اس طرح ہم گنہگار ہوتے ۔پھر ہمیں خوف رہتا کہ کہیں کوئی بھیڑیا گھوڑی یا بھیڑ کا بچہ نہ مار ڈالے یا چور گھوڑے نہ چرا لیں ۔ہم راتوں کو جاگتے رہتے کہ کہیں دنبیاں میمنوں کو اپنے نیچے نہ دبا لیں ،اور ہم بار بار اٹھ کر دیکھتے کہ سب کچھ ٹھیک ہے ۔ ایک کو توجہ دے کر ہٹتے تو دوسری فکر کھڑی ہوتی ،مثلا” سردیوں کے لئے کافی بھوسا ہے کہ نہیں ۔اس کے علاوہ ہم میاں بیوی میں اختلاف راۓ بہت ہوتا تھا ،وہ کہتا ہم نے ایسے ایسے کرنا ہے اور میں اس کی مخالفت کرتی ۔ اور پھر ہم جھگڑتے ۔ دوبارہ گناہ کے مرتکب ہوتے ۔ اس طرح ایک مصیبت سے دوسری مصیبت میں پھنس جاتے ۔ اور خوشی کہیں نہیں ملتی ۔ “

“ اچھا ،اور اب ؟ “

“ اب جب میں اور میرا خاوند صبح اٹھتے ہیں ،ہم ایک دوسرے کو اچھے الفاظ سے بلاتے ہیں ،ہم پرامن رہتے ہیں ،لڑنے جھگڑنے کے لئے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی سواۓ اس کے کہ ہم اپنے مالک کی بہتر خدمت کیسے کریں ۔ ہم اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق کام کرتے ہیں ۔ اور اپنی مرضی سے کرتے ہیں تا کہ ہمارا مالک نقصان نہ اٹھاۓ بلکہ منافع حا صل کرے ۔ جب ہم اندر آتے ہیں ،تو کھانا تیار ہوتا ہے اور پینے کے لئے کومس ہوتا ہے ۔ سردی میں جلانے کے لئے ایندھن ہوتا ہے ۔ ہمارے پاس کھال کا چوغہ / جبہ ہے ۔ ہمارے پاس گفتگو کرنے کا وقت ہے ۔ اپنی روح کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے ۔ عبادت کرنے کا وقت ہے ۔پچاس سال خوشی ڈھونڈی لیکن آخر کار اب اسے پا لیا ۔ہے ۔ “

مہمان ہنسنے لگے ۔

لیکن الیاس نے کہا

“مت ہنسو ، دوستو، یہ مذاق کا معاملہ نہیں ہے ۔ یہ زندگی کی سچائی ہے ۔ پہلے پہل ہم بھی بےوقوف تھے ،اپنی دولت کے نقصان پر روتے تھے ۔لیکن اب خدا نے ہمیں سچائی سے روشناس کر دیا ہے اور وہ ہم اپنی تسلی کے لئے نہیں بلکہ آپ کے فائدے کے لئے بتا رہے ہیں ۔”

ملا نے کہا ،” یہ دانائی کی باتیں ہیں ،الیاس بلکل درست کہہ رہا ہے ۔یہی کچھ خدا کا حکم ہے “

مہمانوں نے ہنسنا چھوڑ دیا اور سوچ میں کھو گئے ۔