سرائےکی نوجوان لڑکی کون تھی؟

وقت اشاعت:27 اکتوبر

سرائےکی نوجوان لڑکی کون تھی؟ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈنمارک کی‘کھراروپ’ نامی ایک سرائے میں کھارن نام کی ایک نوجوان لڑکی میزبانی کے فرائض انجام دیا کرتی تھی۔

تحریر: الیکژیندر شیل لاند،ناروے

اردو ترجمہ: شگفتہ شاہ،ناروے

عام طور پر اسے اکیلے ہی تمام مہمانوں کی خاطر مدارت کرنا پڑتی تھی ۔کیونکہ سرائے کے مالک کی بیوی تو اکثر اپنی چابیوں کی تلاش میں ارد گرد گھومتی رہتی تھی۔کھراروپ سرائے عموماً مہمانوں سے بھری رہتی۔۔آس پاس کے مضافات سے بھی لوگ کھانا کھانے کے لئے وہاں تشریف لایا کرتے ۔

 خاص طور پر خزاں کی شاموں میں جب اندھیرا گہرا ہونے لگتا تو وہ یونہی صرف کافی پینے کے لئے ہی سرائے کے ہال میں آ بیٹھتے تھے۔ پھر اس سرد موسم میں مسافر اور راہ گیربھی پاؤں پٹختے اندر آ گھستے۔۔ تاکہ گرم مشروبات نوش فرما کر اگلی سرائےتک زندگی کی حرارت کو قائم رکھ سکیں۔

کھارن بہت نپے تلے قدموں سے چلتی ان سب مہمانوں کی خاطر داری میں مصروف رہتی۔اسے دیکھ کر کبھی بھی یہ اندازہ نہ ہوتا کہ وہ بہت جلدی یا افراتفری میں ہے۔

وہ ایک دبلی پتلی سی ۔۔نوجوان ، بردبار اور خاموش طبع لڑکی تھی۔

اس لئے وہاں ٹھہرے ہوئے مسافر اس کے ساتھ کوئی ہنسی مذاق نہیں کیا کرتے تھے۔ سرائے میں عام طور پر مہذب لوگ ہی قیام پذیر ہوتے ۔ وہ کھارن کو بروقت گرم گرم کافی پیش کرنے پر سراہتے رہتے۔ جب وہ اپنی ٹرے اٹھائے مہمانوں کے درمیان میں سے گزر رہی ہوتی۔۔تو وہ جلدی سے اپنے بھاری بھر کم اونی ملبوسات کو سمیٹ کراس کے لئے راستہ صاف کر دیتے۔ ایک لمحے کے لئے اپنی گپ شپ سے بھی توقف اختیار کر لیا کرتے۔ وہ سب ہی اُس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اس لئے کہ وہ بہت مہذب لڑکی تھی۔

کھارن کی بڑی بڑی سرمئی آنکھیں تھیں۔۔ جنہیں ایک نظر دیکھنے پر یوں لگتا کہ وہ کہیں دور۔۔بہت دور دیکھ رہی ہوتی۔ اس کی خمدار بھنویں اوپر کو اٹھی ہوتیں ۔۔جیسے وہ کسی حیرانی میں مبتلا ہوں۔

اس لئے اجنبی لوگوں کا خیال ہوتا کہ وہ ان کی بات سمجھ نہیں پا رہی۔۔جبکہ وہ ان کی ہر بات بہت اچھی طرح سمجھ رہی ہوتی ۔۔بلکہ انہیں سمجھنے میں وہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرتی تھی۔ البتہ اس کی یہ بات سب کے لئے بہت حیران کن تھی۔۔۔ کہ اسے دیکھ کر یوں لگتا ۔۔ جیسے وہ کہیں دور کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔۔ یا کچھ سننے کی کوشش کر رہی ہو ۔۔ یا کسی کے انتظار میں ہو ۔۔یا کوئی خواب دیکھ رہی ہو۔

مغرب کی سمت چلنے والی ہوا اب میدانی علاقوں تک آ پہنچی تھی۔ اس نے سمندر کے مغربی حصّے میں بڑی بڑی لہریں پیدا کر دی تھیں۔۔ نمکین پانیوں کی جھاگ اُڑاتی لہروں کو ساحل پر الٹ دیا تھا۔مگر جب وہ خود رو گھاس سے ڈھکے ریتلے ٹیلوں تک پہنچی تو وہ خشک اور گرد آلود ہو چکی تھی ۔ اس کا زور کافی حد تک کم ہو چکا تھا ۔ کھراروپ سرائے تک آتے آتے ۔۔ اب وہ اتنے ہی زور میں تھی کہ وہ سرائے کے اصطبل کا پھاٹک کھول سکتی تھی۔

پھرپھاٹک کھلا اور اصطبل ہوا سے بھر گیا

ہوا کے زور سے مطبخ کا نیم وا دروازہ بھی کھل گیا ۔ بالآخر ہوا کا دباؤ اتنا بڑھا کہ اصطبل کےعقبی پھاٹک کے پٹ بھی وا ہو گئے۔ اب مغربی ہوا فاتحانہ انداز میں اصطبل کے آر پار ہوتی ۔چھت سے لٹکتی لالٹین کو ہلکورے دیتی۔ گھوڑوں کے رکھوالے نوجوان کے سر سے ٹوپی اڑا کر دور اندھیرے میں پھینکتی۔

گھوڑوں کی پشتوں سے نمدے اڑاتی۔ڈنڈے کے سرے پر بیٹھی ایک سفید مرغی کو اچھال کر پانی میں گراتی۔۔۔ ایک مرغ کے حلق سے ایک خوف ناک چیخ ابھری۔ گھوڑوں کے رکھوالے نوجوان نے ہوا کو جلی کٹی سنائیں۔۔مرغیاں ککڑائیں اور مطبخ میں پھیلتے دھوئیں میں لوگوں کو اپنے دم گھٹتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ گھوڑے بے چین ہو گئے اور ان کے سُموں کی رگڑ سے پتّھروں سے چنگاریاں پھوٹنے لگیں۔۔

حتٰی کہ بطخیں ، جو اپنے دڑبوں کے پاس جمگھٹا لگائے دبکی بیٹھیں تھیں۔۔یوں قیں قیں کرنے اور اچھلنے لگیں جیسے مکئی کے دانے پر جھپٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہوں۔ ہوا چاروں جانب سنسناتی اور اودھم مچاتی پھر رہی تھی۔۔ بالآخر دو آدمی سرائے کی نشست گاہ سے باہر آئے اور اپنی پشتوں کو پھاٹک سے ٹکا کر ۔۔ اسے بند رکھنے کے لئے زور لگانے لگے۔ جب کہ ان کے پائپوں سے چنگاریاں اُڑ کر ان کی داڑھیوں میں اٹک گئیں۔

ان سب کارستانیوں کے بعدہوا نے سدا بہار جھاڑیوں اور گہری کھائیوں میں سے گزرتے ہوئے۔۔آدھے میل کی مسافت پر کھراروپ کی جانب آتی ایک ڈاک بگھی کو اپنی گرفت میں جا لیا ۔

‘اسے تو ہمیشہ ہی کھراروپ سرائے پہنچنے کے لئے شیطان کی سی جلدی ہوتی ہے!’پوسٹ مین،اندرش بڑبڑایا اور گھوڑوں پر چابک برسانے لگا۔

پوسٹ ماسٹر تقریباً بیس مرتبہ بگھی کی کھڑکی کھول کر اسے کچھ نہ کچھ کہہ چکا تھا۔

ابتدا میں ایک دوستانہ انداز میں سرائے میں کافی کے ایک کپ کی پیشکش کے ساتھ۔۔مگر پھر اس دوستانہ انداز میں بتدریج کمی آتی گئی اور اب اس نے ایک زور دار جھٹکے سے کھڑکی کھولی اور گھوڑوں اور بگھی بان کو سخت سُست سنائیں۔۔ حالاں کہ اندرش ، اس سر زنش کا بالکل بھی حقدار نہیں تھا۔

ہوا اب سطح ِ زمین کے ساتھ ساتھ ، سدا بہار جھاڑیوں اور سوکھی ٹہنیوں کے درمیان سیٹیاں بجاتی رواں دواں تھی۔ یہ پورے چاند کی رات تھی۔۔ مگر آسمان پر چھائے گہرے بادلوں کے سبّب چاند اس تاریک رات کو صرف ایک ہلکی سی چمک عطا کر پا رہا تھا۔

کھراروپ سرائے کے عقب میں ایک وسیع و عریض سیاہ رنگ دلدل تھی جس کی اوپری سطح پر گلی سڑی گھاس کے ڈھیر اور سوکھی جھاڑیوں کا جال ۔۔ اور اس کے نیچے جا بجا خطرناک گہرے گڑھے پھیلے ہوئےتھے۔لیکن جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ گھاس کی ایک ہموار پٹّی تھی۔۔ جو دورسے ایک پگڈنڈی کی طرح دکھائی دیتی تھی۔ جب کہ حقیقت میں وہاں کوئی راستہ نہیں تھا، بلکہ اس پٹّی کے متوازی ایک گڑھا تھا، جو ارد گرد کے دوسرے گڑھوں سے زیادہ بڑا اور گہراتھا۔

گھاس کی اس پٹّی کے درمیان ایک لومڑ ی گھات لگائے بیٹھی تھی۔۔

تا کہ اس گہری ہوتی رات میں خرگوش اس کے ہاتھوں سے بچ کر نکلنے نہ پائے۔اس کے لئے یہ اندازاہ لگانا بہت آسان تھا کہ اتنی رات گئے خرگوش کوئی لمبا راستہ نہیں لے گا۔

اس نے اپنی لمبی نوک دار تھوتھنی اوپر اٹھاکر ایک محتاط اندازہ لگاتے۔۔ ہوا سے بچتے بچاتے، دبے قدموں آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسی جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنایا، جہاں سے وہ خرگوش کے قریب آنے پر ، اس کی نقل وحرکت پر باآسانی نظر رکھ سکتی تھی۔ پھر اس نے خود ستائی میں مبتلا ہو تے ہوئے سوچا کہ لومڑیاں تو دن بدن پہلے سے زیادہ عقلمند ہوتی جا رہی ہیں، جب کہ خرگوش مسلسل بے وقوف سے بے وقوف ترہوتےجا رہےہیں۔

اس وقت سرائے میں غیر معمولی رش تھا ۔ دو ایک مسافروں نے اپنے لئے بھُنے ہوئے خرگوش کا آرڈر دے رکھاتھا۔ جب کہ سرائے کا مالک ایک نیلامی میں حصّہ لینے کے لئے تھیستاد شہر گیا ہوا تھا۔  سرائے کی مالکن کو تو مطبخ کی دیکھ بھال کے سوا کوئی کام کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔

بدقسمتی سے اسی وقت عدالت کا ایک کارندہ سرائے کے مالک کو گرفتار کرنے کے لئے وہاں پہنچا اور اس کی عدم موجودگی میں ایک لمبا چوڑا انتہائی اہم عدالتی خط اس کی بیوی کے حوالے کرگیا ۔ جس نے اس کے اوسان مزیدخطا کر دئیے۔

تندور کے قریب ہی تیل میں لتھڑے کپڑوں والا ایک اجنبی سوڈا واٹر کی بوتل کے انتظار میں کھڑا تھا

مچھلی کے دو تاجر تین بار اپنی کافی کے ساتھ برانڈی کا مطالبہ کر چکے تھے۔اصطبل کے کاموں میں ہاتھ بٹانے والا لڑکا ایک لالٹین میں بتّی روشن کروانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔ اور ایک بے چین بیٹھے کسان کی نگاہیں کھارن کا تعاقب کر رہی تھیں۔۔ کیونکہ اسے ایک کراؤن میں سے اپنا بقایا ابھی واپس لینا تھا۔

لیکن کھارن خود کوکسی جلدبازی یا الجھن میں ڈالے بغیر یہاں وہاں سب کاموں میں مصروف تھی۔ یہ جاننا مشکل تھا کہ وہ کس طرح ان سارے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے ، انہیں باآسانی نبٹا لیتی تھی۔اس کے کمان کی طرح تنے ابرو اور حیرت میں ڈوبی بڑی بڑی آنکھیں ، کسی کی منتظر لگ رہی تھیں۔۔

اس نے اپنے چھوٹے سے سر کو بالکل ساکن اور سیدھا تان رکھا تھا ۔۔ تاکہ کوئی بھی چیز اس کی سوچوں میں مخل نہ ہونے پائے۔ اس کا نیلے رنگ کا سادہ لباس ، اس کے جسم پر قدرے چست ہونے لگ گیا تھا، جس کی وجہ سے اس کاگریبان تھوڑا سا پھٹ گیا تھا اور اس کے بالوں کے نیچے گردن کے گرد ایک کالر سا بن گیا تھا۔

“یہ دیہاتی لڑکیاں بہت گوری رنگت کی ہوتی ہیں، “مچھلی کے ایک تاجر نے دوسرے سے کہا۔۔وہ دونوں نوجوان تھے اور ماہرانہ انداز سے کھارن کے بارے میں رائے زنی کر رہےتھے۔ کھڑکی کے قریب بیٹھے ایک شخص نے اپنی گھڑی دیکھی اور کہا:”آج تو ڈاک بہت جلدی آ گئی ہے۔”

باہرراستے کے پتّھروں سے ڈاک بگھی کےپہیوں کی ایک مسلسل چرخ چوں سنائی دے رہی تھی۔۔

پھر اصطبل کا دروازہ کھلا، اور ہوا نے دوبارہ تمام دروازوں کے پٹ وا کر دئیےاور تندور کا دھواں پھر سےپھیلنے لگا۔

کھارن سُبک رفتاری سے مطبخ میں داخل ہوئی۔۔عین اسی وقت سرائے کا دروازہ کھلا اور پوسٹ ماسٹر نے اندر داخل ہوتے ہوئے شام بخیر کہا۔

وہ ایک دراز قد، خوبرو نوجوان تھا، اس کی آنکھیں گہری، بال گھنگریالے ، داڑھی سیاہ اور سر نہایت متناسب تھا۔ وہ اپنے شانوں پر ڈنمارک کے قیمتی اور شاندار سرخ کپڑے کا خوبصورت چوغہ اوڑھے تھا۔جس کے کالرکتّے کی کھال کی چوڑی پٹیوں سے مزّین تھے۔ایسا لگتا تھا کہ سرائے کی میزوں کے اوپر چھت سے لٹکتی پیرافن تیل سے جلتی دولالٹینوں کی مدھم روشنی ،سرخ رنگ کے عشق میں مبتلا ہو کر صرف اسی پر مرکوز ہو کر رہ گئی تھی۔۔ جو کمرے میں موجود سیاہ، سرمئی اور دوسرے سبھی رنگوں سے منفرد تھا۔

وہ سروقد نوجوان جب اپنے چھوٹے چھوٹے گھنگریالے بالوں والے متناسب سر اور چوڑے کالروں پر سجی ارغوانی پٹیوں کے ساتھ اس نیچی چھت والے دھواں دار کمرے میں داخل ہوا تو وہ شان وشوکت اور خوبصورتی کا ایک کرشمہ لگ رہا تھا۔

کھارن اپنی ٹرے سنبھالے تیزی سے مطبخ سے باہر نکلی۔

اس کا سر نیچے جھکا ہوا تھا۔ اس لئے مہمان اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے تھے کیونکہ وہ بہت تیزی سے ایک کے بعد دوسرے مہمان کی طرف لپک رہی تھی۔

اس نے مچھلی کے تاجروں کو بُھنا ہوا خرگوش پیش کیا۔ سوڈا واٹر کی ایک بوتل کمرے کے وسط میں بیٹھے دو مسافروں کے آگے رکھ دی۔ اور پھر اس نے پریشان کھڑے دیہاتی کو ایک موم بتّی تھمادی ۔۔اور جب وہ دوبارہ مطبخ سے باہر آئی،تو اس نے تریسٹھ پیسے کا بقایا بھی تندور کے پاس کھڑے اسی اجنبی دیہاتی کے ہاتھ میں تھما دیا ۔

سرائے کے مالک کی بیوی سخت پریشانی میں تھی۔غیر متوقع طور پر اسے اپنی چابیاں تو مل گئی تھیں، مگر اب عدالت کا خط کہیں کھو گیا تھا۔۔ سرائے میں موجود سب لوگ اس لئے شدید بے چینی میں مبتلا تھے، کہ ان میں سے کسی کو بھی وہ نہیں مل رہا تھا ، جس کی وہ فرمائش کر رہے تھے، وہ سب بولتے ہوئے ایک دوسرے کی بات کاٹ رہے تھے، کچھ مسافر مسلسل میز پر پڑی گھنٹی بجا ئے جا رہے تھے۔۔

مچھلی کے دونوں تاجر بھنے ہوئے خرگوش کودیکھ کر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئے جا رہے تھے،جو ایک تھالی میں اپنی ٹانگیں پسارے ان کے سامنے پڑا تھا؛ اس حیران وپریشان دیہاتی نے اپنی موم بتّی تھامے ہوئے سرائے کی مالکن کا کندھا تھپتھپایا؛ تریسٹھ پیسے دیکھ کر اس کے جسم میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوگئی۔۔اور اس سب مایوس کن افراتفری کے دوران کھارن اپنا کوئی سراغ چھوڑے بغیر کہیں غائب ہو چکی تھی۔

تھوڑی دیر کے بعد پوسٹ مین ،اندرش اپنی سیٹ پر جا بیٹھا؛اصطبل کا نگران لڑکا گیٹ کھولنے کے لئے تیار کھڑا تھا؛ بگھی میں سوار دو مسافر روانگی کے لئے بے قرار تھے؛ گھوڑوں کا بھی یہی حال تھا۔۔ اگرچہ وہ کسی خوشگوار سفر کے منتظر نہیں تھےاور اصطبل کے دروازوں سے اندر گھستی ہوا سیٹیاں بجا رہی تھی۔

بالآخرپوسٹ ماسٹر واپس آ یا۔ جس کا سب کو شدت سےا نتظار تھا۔وہ اپنا بھاری چوغہ اپنے ایک بازو پر ڈالے ،جب بگھی پر سوار ہوا تو اس نے مسافروں کے سامنے اپنے دیر سے آنے کا عذر پیش کیا۔ لالٹین کی روشنی سیدھی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی؛ اس کا چہرہ تپ رہا تھا۔ اس نے اپنا چوغہ اوپر کھینچا اور کوچ بان کے قریب بیٹھ گیا۔

اصطبل کا گیٹ کھلا اور بگھی دھیرے دھیرے باہر نکل آئی۔ اندرش گھوڑوں کو بہت نرمی سے ہانک رہا تھا ۔۔ کیوں کہ اب انہیں کوئی جلدی نہیں تھی۔وہ وقتاً فوقتاً کن آنکھیوں سے اپنے قریب بیٹھے پوسٹ ماسٹرکو بھی دیکھ لیتا؛جس کے چہرے پر مسکرا ہٹ ابھی تک پھیلی ہوئی تھی ، اور جس کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔

پوسٹ مین،اندرش بھی اپنے خاص انداز سے مسکرا دیا، وہ سب سمجھ رہا تھا۔

ہوا نے موڑ تک بگھی کا ساتھ دیا، اس کے بعد اس نے پھر میدانی علاقوں کا رخ اختیار کرلیا اور خود رو خشک جھاڑیوں کے درمیان میں اپنا راستہ بناتی سیٹیاں بجاتی آگے بڑھنے لگی۔ لومڑی اپنے مورچے میں ڈٹی بیٹھی تھی، اس نے ہر چیز کا ایک محتاط اندازہ لگا رکھا تھا؛ اور اس کے اندازے کے مطابق خرگوش کو بہت جلد وہاں پہنچ جانا چاہیے تھا۔

آخر کار کھارن واپس سرائے میں پہنچ گئی۔۔ اور آہستہ آہستہ سب کی پریشانی کم ہونے لگی۔ ایک حیران وپریشان دیہاتی سےموم بتّی واپس لے لی گئی تھی اور اس کے تریسٹھ پیسے کا بقایا اسے مل گیا تھااور تاجر حضرات بھُنےہوئےخرگوش پر ہاتھ صاف کر رہے تھے۔

سرائے کی مالکن نے کھارن کو قدرے گھور کر دیکھا؛ لیکن اس نےآج تک اسے ڈانٹا نہیں تھا؛ دنیا میں ایسا کوئی فردنہیں تھا ، جو کھارن کو ڈانٹ سکتا۔

کھارن خاموشی اور تحمل سے دوبارہ کام میں جُٹ گئی۔۔ اور اس نے اپنی پُر سکون خوش مزاجی سے، جو ہمیشہ اس پر طاری رہتی ، ایک بار پھر گرم اور نیم تاریک ماحول کو خوشگوار بنا دیا ۔مگروہ مچھلی کے دو تاجر، جنہوں نے کافی کے ساتھ دو دفعہ برانڈی بھی خریدی تھی۔۔ مسلسل اسے گھورے جارہے تھے۔ کھارن کے گالوں پر ہلکی سی سرخی تھی اور ہونٹوں پر دبی دبی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔صرف ایک بار جب اس نے پلکیں اُٹھا کر ان کی جانب دیکھا تو ان کے جسموں میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی۔

مگر جب کھارن کو یہ احساس ہوا کہ ان کی نگاہیں مسلسل اس کا تعاقب کر رہی ہیں، تو وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی، جہاں دو تاجر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔وہاں وہ برتنوں کی میز کے پاس کھڑی ہو کر چمچیں پونچھنے میں مصروف ہو گئی۔

“کیا آپ نے پوسٹ ماسٹر کوغور سے دیکھا؟” ان میں سے ایک مسافر نے دوسرے سے پوچھا۔

“نہیں، میں تو اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پایا ؛ وہ تو فوراً ہی واپس چلا گیا تھا،”دوسرے مسافر نے کھانا چباتے ہوئےجواب دیا۔

“وہ شیطان کا پکا ساتھی ہے، میں اس کی شادی میں شامل ہوا تھا ، میں نے وہاں رقص میں بھی حصّہ لیا تھا۔”

“تو ۔۔ کیا وہ شادی شدہ ہے؟”

“جی ہاں! – اس کی بیوی لیموگ میں رہتی ہے؛ ان کے دو بچے بھی ہیں۔ اس کا سسر اُولسروپ سرائے کا مالک ہے، میں عین شادی کی رات وہاں پہنچا تھا۔ آپ یقین کیجئے – وہ ایک نہایت پُر رونق رات تھی!”

کھارن کے ہاتھ سے چمچ چھوٹ گئی اور وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔ پکارنے والوں کی کوئی آواز اسے سنائی نہ دی؛ وہ صحن پار کرکے اپنے کمرے میں داخل ہوئی، دروازہ بند کیا اور گم ہوتے حواس کے ساتھ بستر کی سلوٹیں سیدھی کرنے لگ گئی۔ اندھیرے میں بھی اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا ، اور پھر سینے پر ہاتھ باندھ لئے۔۔ اس نے ایک سرد آہ بھری ، وہ کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔ یہ سب کچھ اس کی سمجھ سے بالکل بالاتر تھا۔

مگر جب اس نے مالکن کی آواز سنی، جو شکایت آمیز لہجے میں اسے پکار رہی تھی :”کھارن!اری کھارن!” ۔۔ تب وہ اُٹھ کھڑی ہوئی، صحن عبور کیا ، اور چکر کاٹ کر گھر کے پچھواڑے سے ہوتی ہوئی، دور ویرانے کی جانب چل دی۔

یہ بھی پڑھیے

یہ بھی پڑھیئے: کاش اس باغی اورفحش نگارکےکرب کوسب محسوس کرسکیں

مدھم روشنی میں دلدلی زمین کے درمیان،جھاڑیوں کے ساتھ ساتھ اُگی گھاس کی پٹّی ایک پگڈنڈی کی مانند دکھائی دے رہی تھی؛جب کہ حقیقت میں وہاں کوئی راستہ نہیں تھا ۔۔ کسی کے لئے بھی یہ یقین کر لینا ،کہ وہاں کوئی راستہ ہو سکتا ہے، کوئی بڑا خطرہ مول لینے سے کم نہیں تھا۔۔ کیونکہ گھاس کی یہ پٹّی ایک بڑےاور گہرےگڑھےکے دہانے پر ختم ہوتی تھی۔

خرگوش نے جب پانی میں چھپاکے سےکسی چیز کے گرنے کی آواز سنی ؛ تو وہ چوکنّا ہو گیا۔اس نے پاگلوں کی طرح ،پھرتی سے ایک لمبی جست لگائی۔ اپنی ٹانگوں کو اکٹھا کر کے اپنے سینے سے لگایا ، اپنی کمر کو سکیڑا ، اوپر اچھل کر انہیں کھولا اور کسی اڑنے والی مخلوق کی مانند ، ایک لمبی زقند بھری، اور جھاڑیاں پھلانگتے ہوئےدور بھاگ گیا۔

لومڑی نے اپنی نوک دار تھوتھنی اوپر کو اُٹھائی او ر حیران و پریشان ہو کر بھاگتے ہوئے خرگوش کو دیکھنے لگی۔

اسے کوئی آواز سنائی نہیں دی تھی۔  وہ تو تمام قاعدے قوانین کو دھیان میں رکھتے ہوئے بہت خاموشی سے گہری کھائی کے پاس سے رینگتی ہوئے آئی تھی۔اس کے خیال میں اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے وہ خرگوش کے اس عجیب وغریب طرزِ عمل کو سمجھنے سے قاصر تھی۔

لومڑی کافی دیر تک اپنا سر آسمان کی طرف اٹھائے وہیں کھڑی رہی۔ اس کے جسم کا پچھلا حصّہ اورگھنی دم جھاڑی میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ اس سوچ میں غرق تھی، کہ کیا خرگوش دانشمند ہو گئے ہیں ، یا کہ لومڑیاں پہلے سے زیادہ بے وقوف ہو گئی ہیں۔ جب مغرب کے رُخ چلنے والی ہوا بہت دیر تک اپنا زور دکھا چکی تو وہ شمال کے رُخ چلنے لگی اور پھر مشرق اور جنوب کا رُخ اختیار کرنے کے بعد ، پھر سے سمندر کے اوپر سے ہوتی ہوئی مغربی سمت کو چل دی، وہ سیٹیاں بجاتی ہوئی ریتلے ٹیلوں اور خشک جھاڑیوں کے آرپار ہونے لگی۔ مگر اس دوران میں ۔۔حیرت میں ڈوبی وہ دو گہری آنکھیں اور نیلے رنگ کا عام سا لباس ، جو اب تنگ ہوتا جا رہا تھا، کہیں غائب ہو چکےتھے۔۔ سرائے کی مالکن بہت غصّے میں تھی۔ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔۔ لیکن اس سارے معاملے کو ۔۔ پوسٹ مین،اندرش۔ اور ایک اور شخّص کے علاوہ کوئی بھی سمجھ نہیں سکتا تھا ۔

لیکن جب بزرگوں نے اپنی نوجوان نسل کو سنجیدگی سے کوئی نصیحت کرنا ہوتی ہے تو وہ عمو ماً بات کا آغاز کچھ اس طرح کرتے ہیں:” ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ڈنمارک کی کھراروپ نامی ایک سرائے میں کھارن نام کی ایک نوجوان لڑکی میزبانی کے فرائض انجام دیا کرتی تھی۔”

(نارویجین زبان سے براہِ راست اردو ترجمہ)