ہائےگرمی

گرمی نے تو اس قدر مت مار دی ہے کہ باہر جانے کے خیال سے ہی دانتوں پسینہ آ جاتا ہے۔ نہ بھئی نہ۔ اوپر سے مجھ بھولی بھالی عوام نے کسی یوٹیوب چینل کا نسخہ بے بہا “گرمی کا آسان حل” کلک کیا تو جواب نکلا سائبیریا کی راہ لیں۔۔۔۔

فاطمہ عمران افسانہ نویس ہیں۔تفریحی،طنزیہ اور سوشل موضوعات پرلکھتی ہیں ۔ان کے افسانے مختلف اخبارات اور جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔

ہن دسو! امجد بھائی کی پوسٹ پڑھ کر مجھے بھی یاد آیا۔۔ہماری امی سناتی ہیں کہ ان کے بچپن میں سب بچے اکٹھے ہو کر گڑیا کی شادی کرتے تھے اور پھر گڑیا کو جلا کر اس کی موت پر خوب واویلا مچایا جاتا۔۔ قدرت بھی بچوں کی ہو ہو کار سے بےزار ہو کر انکا منہ بند کروانے کے لیے ابر رحمت بھیج دیتی اور یوں مسئلہ چٹکیوں میں حل۔۔گرمی کا یہ عالم تو اب ہوا ہے ورنہ ہمارے بچپن میں ہم تپتی دوپہروں میں اپنی گڑیا کے جہیز کےلیے گلیوں کا چکر لگاتے اور مس ستارہ کے گھر کے باہر لگے سورج مکھی کے پھول توڑنے کی سعیِ ناکام کیا کرتے تھے۔

سب بچوں کا مشترکہ خیال تھا کہ مس ستارہ کے پھولوں کی حفاظت غائبانہ کتے کرتے ہیں۔ جبھی خاردار تار پر چڑھ کر جتنا بھی لٹک لو ہاتھ نہیں پہنچتا۔۔۔انہی تپتی دوپہروں میں ہم اور تا بھائی گلیوں کے چکر لگاتے وقت انتہائی اہم پلاننگ بھی کیا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک جھلستی دوپہر میں ہم نے اپنی گڑیا کی شادی پر پائی پائی جوڑ کر باراتیوں کے لیے ڈنگ ڈانگ ببل کا پیکٹ خریدنے کا آئیڈیا سوچا اور قسم کھائی تھی کہ یہ سرپرائز ہم آخر دم تک نہ کھولیں گے۔

کتنا مزہ آئےگاجب باراتی منہ میں انگلیاں دابیں گے اور ہمارے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ ہو گی۔ شومئی قسمت کہ پیسے پھوپھو سے لینے پڑے جنہوں نے پیسے تب تک نہ دیے جب تک ہر ممکنہ باراتی تک اس خبر کو پہنچا نہ دیا۔۔ اس زمانے میں اتنی شاندار شادی خال خال ہی ہوتی تھی۔۔ غریب بھوکے باراتی بھی اس ببل گم پر ایسا ٹوٹے کہ ساتھ پڑی بریانی کی پلیٹیں چھوئیں تک نہ۔۔ پھر رات گئے تک بنا تکان اتنا دھمال ڈالا کہ کوئی دور سے دیکھتا تو اسے لگتا گھر کی چھت پر تار پھینکنے سے سب کو مشترکہ کرنٹ لگ گیا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ علی ڈانس کرتے ہوئے اپنی ایک ٹانگ یوں اٹھاتا گویا پھسل کر گرنے لگا ہے۔ وہ اس کا راک ڈانس تھا۔۔ سنی کا ڈانس انتہائی “سوفیٹیکیٹڈ” قسم کا بکواس تھا۔ وہ ہاتھ ہلاتے ہوئے تھوڑا تھوڑا چلتا اور پھر ایک دم سے کمر کو ہلا کر ایک زوردار جھٹکا دیتا ۔رقص کے نام پر اعتزاز کو ویسے ہی مرگی کے جھٹکے لگ رہے تھے اور میں یوں ناچ رہی تھی کہ دونوں ہاتھ کھول کر بھاگ کر ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتی اور چکر مکمل ہونے پر گول گول گھومتی۔۔میرے تئیں یہ بڑا زبردست اور مشکل ڈانس تھا جس سے باقی بچے ابھی ناواقف تھے ۔۔۔

ادھر کنول اور فیضان کونےمیں کھڑے بازو پر سے بازو گھما کر ڈانس کو بھی شرما رہے تھے ۔۔ اور طلحہ سب کے درمیان کھڑا اپنی “کٹورا کٹ” کو وجد کی حالت میں لہلا رہا تھا ۔۔ الغرض ایک عجیب سا تماشا بپا تھا۔۔۔ہم گڑیا والوں نے صرف ببل گم سے پرتعیش دعوت ہی نہیں کی بلکہ مہندی پر موم بتیاں لگا کر بارات والوں کا “پُرنور” استقبال بھی کیا۔۔بھالو والوں نے تو منہ میں انگلیاں داب لی تھیں کہ گڑیا والوں کے پاس موم بتیوں کے پیسے بھی ہیں۔ خود وہ آٹے پر الٹی سیدھی تیلیاں اڑا کر جو لائے تھے۔۔

شادی کے اختتام پر ہم ہی جانتے ہیں کہ کس دل سے ہم نے اس پیلا دکھنے والے سفید بھالو کے ساتھ اپنی گڑیا ووداع کی۔بدھائی کے سمےکنول اور اجالا کے چہرے پر سسرالی رعونت صاف دکھ رہی تھی۔ اگلے دن حال احوال پتہ کرنے گئے تو کیا دیکھتے ہیں ہماری عزیز از جان گڑیا بیڈ کے نیچے اوندھے منہ پڑی ہے۔ دل کٹ کر رہ گیا۔۔وہ واویلا مچایا کہ وہیں کہ وہیں اس بدشکلے بھالو سے طلاق دلوا کر ہی دم لیا۔ حالانکہ کنول اور اجالا نے عدالت بھی لگوائی کہ “ٹیکنکلی” گڑیا اب انکی ہے۔

اللہ جانے پہلے ہاتھ اس منحوس بھالو کے لیے ہاں ہم نے کی ہی کیوں تھی? اب گرمی نہ ہوتی تو ان ساری باتوں میں ہم کوئی ڈھنگ کا تعلق بھی بنا لیتے مگر بچپن کی ٹھنڈی ٹھنڈی یادوں کے ساتھ صرف یہی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ہائے گرمی