طوفانی بارشوں کے تیز سلسلے اور تباہ کن سیلابوں نے بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور سرائیکی وسیب میں وہ تباہی مچائی ہے کہ 2010ءکے سیلاب کی شدت بھی یہ نہ تھی۔ معیشت ہے کہ اس کی ڈوبتی نبضوں کو آئی ایم ایف اور عربوں کی فیاضی کے ٹیکوں کی ضرورت ہے۔ اوپر سے پاکستان کے ڈوبتے ماحولیاتی و اقتصادی جہاز کی حکمرانی کے لئے خوفناک جنگ ہر ریڈلائن کراس کررہی ہے۔ ایسے میں خیر کی اُمید کی جائے بھی تو کس سے؟ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ حکومت نے عمران خان پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کرکے اور پنجاب و پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومتوں کے جوابی پرچوں سے سیاست کا منہ کالا کیا ہوا ہے۔
سیاست کی مار دھاڑ سے فرصت ملتی تو توجہ ملک کی ایک چوتھائی آبادی اور تین چوتھائی رقبے پہ پھیلی تباہی اور کروڑوں عوام کی آہ و بکا کی جانب جاتی۔ بدترین گرمی جو 50 ڈگری کے درجۂ حرارت تک لوگوں کو جھلسا گئی، کے بعد دو ماہ سے جاری بارشوں کے طوفانوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بروقت نمٹنے کی کسی کو فرصت نہ تھی، ہوش آیا بھی تو تب جب سیلابی ریلے سب کچھ بہا لے گئے۔
اقتدار کی سیاست کا انتقام ہے کہ آخری حدوں سے بھی گزر گیا۔ آئی ایم ایف بورڈ کے سوموار کو ہونے والے اجلاس سے تین روز قبل تحریکِ انصاف کی خیبرپختونخوا کی حکومت کے وزیر خزانہ تیمور خان جھگڑا نے جمعہ کے روز وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو خط لکھ کر متنبہ کیا کہ ان کا صوبہ وفاق اور صوبوں کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق 117 ارب روپے کا سرپلس نہیں بچا پائے گا جو کہ چاروں صوبوں کے 750 ارب روپے کی کفایت شعاری (سرپلس) کا حصہ ہے۔ صوبوں کی یہ بچت آئی ایم ایف کی پانچ شرائط میں سے ایک ہے جس کی وفاق اور چاروں صوبوں نے گزشتہ ماہ توثیق کی تھی جس پر تیمور خان جھگڑا کے دستخط بھی ہیں۔ جھگڑا کا یہ خط تحریک انصاف کے رہنماؤں فواد چوہدری اور شوکت ترین کی دھمکیوں کے بعد جاری ہوا جس میں پنجاب اور پختونخوا کی حکومتوں کو کہا گیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کی اس شرط کو پورا کرنے سے انکار کردیں۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے پاکستان کو دیوالیہ کرانے کی حد تک بھی جاسکتی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کو سبوتاژ کرسکتی ہے۔ بھلا اس سے بڑی ملک کے خلاف معاشی دہشت گردی کیا ہوسکتی ہے؟ مسٹر جھگڑا نے اپنے خط میں وہ جائز صوبائی ایشوز اُٹھائے ہیں جو 2016ء سے حل طلب ہیں اور خود عمران خان کی وفاقی حکومت اُنہیں حل نہ کرپائی تھی۔
مفتاح اسماعیل نے جائز طور پر سوال اٹھایا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس سے دو روز قبل اس خط کا مقصد سوائے اس کے کوئی نہیں کہ بیل آؤٹ پیکیج کو ناکام بنایا جائے اور پاکستان کو دیوالیہ پن کے سمندر میں ڈبودیا جائے۔ اب جب کہ ہر کوئی سیلاب زدگان کو بچانے، ریلیف دینےا ور بحال کرنے کے لئے امداد کی اپیل کررہا ہے، عمران خان نے سیلاب زدگان کے لئے فنڈز دینے کی اپیل کرنے سے انکار کردیا ہے۔ حالانکہ وہ پنجاب اور پختونخوا کے لئے تو کم از کم ایسا کرسکتے تھے۔ لیکن انہوں نے فنڈز جمع کرنے کی اپیل کی بھی ہے تو اپنی حکومت مخالف تحریک کے لئے۔
اسی طرح تحریک انصاف نے وزیراعظم شہباز شریف کے قطر کے اہم دورے کو سبوتاژ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خود عمران خان کو بے مقصد جلسوں سے اتنی فرصت نہ ملی کہ وہ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرتے اور اپنی دونوں صوبائی حکومتوں کو متحرک کرتے ۔ چند گھنٹوں کے لئے انہوں نے اگر ڈیرہ اسماعیل خان کا دورہ کیا بھی تو یہ کہنے کےلئےکہ اگر ڈیم بنائے جاتے تو سیلابی پانی کی تباہی سے بچا جاسکتا تھا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ وہ یقیناً ماحولیاتی تباہی کے مسئلے کو اجاگر کرتے رہے تھے، لیکن عملاً انہوں نے خود اپنی حکومت میں چھوٹے ڈیموں کا آغاز کیوں نہ کیا اور مہمند اور منڈا ڈیمز کیوں ٹوٹ گئے؟ ہر طرح کی آفتوں میں گھرے پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر اپنے اقتدار کی بحالی کے لئے اس حد تک جائے گا،ناقابلِ تصور سیاسی طرزِ عمل ہے۔
اس وقت پاکستان قدرتی و انسانی ماحولیاتی تباہی میں ڈوبا ہوا ہے، معاشی بحالی کا دور دور تک نام و نشان نہیں اور عوام 45 فیصد مہنگائی اور مہنگی توانائی کے ہاتھوں بے حال ہیں۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لئے اپنے قومی اثاثے بیچنے پڑرہے ہیں اور اب ہمارے دوست قومی اثاثوں کے بدلے ہمیں خیرات دینے پہ مائل نظر آتے ہیں۔ مغرب کی کلائنٹ اسٹیٹ کے طور پر ”بیرونی امداد“ پہ پلنے والی مفت بر سلامتی کی ریاست اور عالمی اسٹرٹیجک ڈیزائن میں اپنی افادیت کھو بیٹھی ہے تو خلیجی ریاستوں کی ”امداد“ مفت ملنے والی ہے نہ بغیر اسٹرٹیجک شرائط کے۔
آئندہ سوموار کواگر آئی ایم ایف نے معاہدے کی تجدید کردی اور قرض فراہم کردیا تو دوست ملکوں کی امداد کی راہ بھی ہموار ہوجائے گی۔ اس کے ساتھ ہی لگتا ہے کہ پاکستان فنانشل ٹاسک فورس کے ستمبر کے جائزے کے بعد ممکنہ طور پر گرے لسٹ سے نکل سکتا ہے۔ معاشی دیوالیہ پن سے بچ نکلنے اور گرے لسٹ سے نکل کر اس اتحادی حکومت کے سامنے بڑا مسئلہ سیلاب زدگان کی بحالی، مہنگائی میں کمی، معیشت کی بحالی اور مذاکرات سے سیاسی استحکام کا حصول ہوگا۔ لیکن عمران خان سیاسی مذاکرات پہ راضی ہیں نہ ان کے سامنے کوئی مثبت متبادل روڈ میپ موجودہے۔ہم پھر آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی جانب جو سیلابی تباہی سے متعلق ہے۔ یہ یقیناً ایک قدرتی آفت ہے جس میں انسان نے خود بڑا اضافہ کیا ہے۔
قدرت اور قدرتی ذرائع پہ کنٹرول حاصل کرنے اور ان کا بے پایاں استحصال کر کے انسان نے ماحولیاتی تباہی کو خوفناک حد تک اتنا بڑھا دیا ہے کہ کرہ ارض اور اس کا ایکوسسٹم مکمل تباہ ہوسکتا ہے اور نسلِ انسانی ناپید ہوسکتی ہے۔ ماہرین ارضیات اس کو ایتھنو پروسین زمانہ کہہ رہے ہیں جس میں قدرت انسان کے ہاتھوں تباہ ہورہی ہے ۔ پاکستان میں گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ خشک سالی، سیلاب، جنگلات کی تلفی، ریگستانی زمین کا پھیلاؤ، انسانی آبادی کے بڑھاؤ کا بم، پانی کی قلت، توانائی کے ماحولیات کش ایندھن و ذرائع اور کاربن کی پیداوار سب مل کر ہمارے قدرتی ماحول کو تباہ کررہے ہیں۔ اوپر سے کراچی و وسطی پنجاب کے مرکزی علاقوں سے باہر کا مضافاتی پاکستان ترقی کے فریم ورک سے باہر ہے جس کے باعث ماحولیاتی و سیلابی تباہی کا یہی علاقے زیادہ شکار ہوتے ہیں جو ترقی کے دائرے سے باہر ہیں۔
دیگر مسئلوں کی طرح ماحولیاتی تباہی کا مسئلہ بھی ایک دور رَس حکمتِ عملی اور پائیدار حل کا متقاضی ہے لیکن پاکستان میں انسان اور یہاں کی دھرتی ہماری ترقی کا مرکزہ نہیں۔ غیر پیداواری ریاست اور استحصالی اشرافیہ ہے جنہیں بدلے بغیر لوگوں اور دھرتی کی قسمت بدلنے والی نہیں