تماشےسےجمہورکوکیاسروکار

لیجئے ایک اور کٹھ پُتلی تماشہ لگنے جارہا ہے اور سیاسی منظر کیا کیا رنگ اختیار کرے گا کسی کو اندازہ ہو تو بتائے۔ لگتا ہے کہ آصف علی زرداری نے جو پتا کھیلا تھا کہ پہلے عمران خان کو ہٹائو تو پھر بات ہوگی کو کم از کم پی ڈی ایم کی جماعتوں نے تھام لیا ہے اور اُن کی اُمیدوں کا مرکز اگر کوئی ہے بھی تو تحریکِ انصاف کے ممکنہ منحرفین اور اس کی اتحادی جماعتیں ہیں۔ 

جن میں اب بلوچستان عوامی پارٹی کا کہنا ہے کہ اُنہیں اب ’’اشارے‘‘ ملنا بند ہوگئے ہیں اور انہیں اپنی جنگ خود لڑنے کی ’’آزادی‘‘ مل گئی ہے، جس مقتدرہ سے میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن اور مریم نواز ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے پہ کبھی مزاحمت پہ کاربند تھے، اُسے اب عدم اعتماد کے ووٹ کیلئے پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ 

اب اداروں سے شفقت بھری ’’غیر جانبداری‘‘ کی اُمیدیں باندھ کر پی ڈی ایم خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف آصف علی زرداری کی سجھائی راہ پہ چل نکلے ہیں۔ 

گو کہ حکومتی اتحادی پارٹیاں، مسلم لیگ ق ہو یا ایم کیو ایم پاکستان، ہوا کے بدلتے رُخ کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں، اصل بے چینی تحریک انصاف کے دو تین درجن اراکین قومی اسمبلی اور پنجاب کے کئی درجن پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی ہے جو پارٹی کی تیزی سے کھوتی ہوئی ساکھ کا بوجھ شاید زیادہ دیر تک اُٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں اور ان کی خوفزدہ نگاہیں 2023ء کے عام انتخابات کے انتظار میں منجمد رہنے کو تیار نہیں ہیں۔ 

لگتا یوں ہے کہ نواز لیگ میں ہائوس فل ہونے کے باعث یا تو پنجاب میں تحریکِ انصاف کے بطن سے بلوچستان طرز کی باپ پارٹی جنم لے گی یا پھر پیپلزپارٹی کے پنجاب کے خالی دامن میں ان کے لیے جگہ ہی جگہ ہوگی۔ 

گجرات کے چوہدریوں کی ملنساری تو پنجاب میں ایک متبادل عارضی بندوبست کا اہتمام کرنے میں کارآمد ہوسکتی ہے، لیکن ایم کیو ایم والے تحریک انصاف کے کراچی سے انخلا پر جس حصے کی اُمید کر رہے ہیں وہ پیپلزپارٹی کے ہوتے ہوئے برآتی نظر نہیں آتی۔ رہی بلوچستان کی باپ تو وہ اپنے باپ کے اشارے پہ اپنا قبلہ کبھی بھی بدل سکتی ہے۔ 

عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اگر کامیاب ہوتی ہے تو ایسی حکومت جس کی کارکردگی پہ انہوں نے خود عدم اعتماد کردیا ہے جاتی ہے تو جائے، اُن کی بلا سے۔ جو ساڑھے تین برس کی نالائقیوں اور ناکامیوں کا ملبہ ان کے سر پہ پڑا ہے وہ کسی اور کے سر منڈھا جاتا ہے تو سیاسی طور پران کیلئے باعثِ طمانیت ہوگا اور وہ زیادہ خطرناک نہ بھی بنے تو چھوٹے موٹے خطرات تو پیدا کر ہی سکیں گے۔

گو کہ عدم اعتماد کا ووٹ لانا حزبِ اختلاف کا آئینی و جمہوری حق ہے اور ایک سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے کا اخلاقی جواز بھی بنتا ہے لیکن سارے کے سارے آئینی و جمہوری اور اخلاقی جواز کی بنیاد اگر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے اراکینِ اسمبلی کے غیر آئینی و غیر اخلاقی انحراف پہ رکھی جائے گی تو اس کے پلے آئینی و اخلاقی معنوں میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔ 

البتہ عمران حکومت کے اتحادی ٹوٹ کر علیحدہ ہوتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن پنجاب میں ن لیگ گجرات کے چوہدریوں اور پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان کو کہاں تک خوش کرپائے گی، یہ بذاتِ خود ایک گھمبیر معاملہ ہے۔ 

چلئے ان میں معاملات طے بھی ہوجاتے ہیں تو عمران حکومت کے مقابلے میں متبادل حکومت اور کارگر متبادل ایجنڈا اور منصوبہ کیا ہے جو موجودہ بحران کا قابلِ عمل اور موثر علاج کرپائے؟ اس عبوری دور کے عبوری انتظام کا کیا لمیٹڈ مینڈیٹ ہوگا؟ 

اگر تو عمران حکومت کو فارغ کر کے، فوری انتخابات کا انعقاد بنیادی مقصد ہے تو اس کا آسان ترین راستہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو چھوڑنے کے لیے ،جو اراکین اسمبلی اتنے ہی بے چین ہیں، وہ اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجائیں (جو کہ اُن کا جمہوری حق ہے) تو وزیراعظم عمران خان اکثریت کھو بیٹھیں گے اور نئے انتخابات کروانے پڑیں گے۔ لیکن ابھی ایسا ہوتانظر نہیں آرہا اور اپوزیشن نمبر گیم کا غیر اخلاقی بوجھ اُٹھا کر کسی صورت جمہوری عمل کو آگے نہیں بڑھا پائے گی۔ سیاسی بحران کا ایسا سلسلہ چل نکلے گا کہ سیاستدانوں کے پلے کچھ نہیں رہے گا۔ 

وزیراعظم عمران خان پہلے ہی اپنی کابینہ کے اراکین کی کارکردگی کے حوالے سے بڑی بھاری اکثریت کو فیل قرار دے چکے ہیں اور جو دس حسنِ کارکردگی کے تمغہ کے حقدار ٹھہرے بھی ہیں تو اس میں مضحکہ خیز طور پر اول آئے بھی ہیں تو وزیر مواصلات مراد سعید۔

دراصل ہائبرڈ نظام اپنے اندرونی تضادات کے باعث ایک طرح کی اندرونی کھلبلی کی لپیٹ میں ہے۔ فریقین اپنی اپنی گیم میں مصروف ہیں۔ عدم اعتماد کے ووٹ کا چالا بھی وزیراعظم عمران خان کو چیک کرنے کیلئے سامنے آیا ہے اور اپوزیشن اپنی موضوعی ضرورتوں کے باعث اس کھیل میں کود گئی ہے جو جمہوری ٹرانزیشن کے ہائبرڈ نظام سے آئینی و جمہوری نظام کی جانب سفر کے لیے تباہ کن ہے اور اس حقیقت کا کھلے عام اعتراف کیا جارہا ہے کہ مقتدرہ ہمیشہ سے سیاست میں رہتی ہے اور اس کے ساتھ مل کر ہی سیاست کی جاسکتی ہے۔ 

پاکستان کو اکانومسٹ نے جمہوری انڈیکس میں 104واں نمبر دیا ہے اور یہ ہائبرڈ نظام (نہ جمہوریت، نہ آمریت) والے ملکوں میں شامل کیا گیا ہے اور ان میں بھی اس کا نمبر آٹھواں ہے۔ 

فریڈم ہائوس کے جائزے کے مطابق سیاسی حقوق ہوں یا پھر شہری آزادیاں پاکستان کی ریٹنگ 37/100 ہے۔ اب جو جھگڑا ہے تو اگلے سیٹ اپ پر۔ عمران خان کا اپنا منصوبہ ہے اور وہ ابھی سے اپنا کلہ مضبوط کرنے کیلئے اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرنے کیلئے پرتول رہے ہیں۔ 

دوسری جانب مقتدرہ کے چیف ہیں اور اُن کا ادارہ اپنی اور آگے کی فکر میں ہیں۔ اپوزیشن تو اس کھیل میں کود چکی ہے اور عمران خان بھی ڈٹ گئے ہیں۔ اگرچہ زمین وزیر اعظم کے پائوں تلے سے کھسک رہی ہے، لیکن وہ اتنے بااختیار ہیں کہ کوئی بھی بڑا قدم اٹھاسکتے ہیں اور اس کا خمیازہ بھی بھگت سکتے ہیں۔ وزرائے اعظم اور مقتدرہ میں کشمکش کا یہ نظارہ ہم کئی بار کرچکے ہیں۔ 

وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کامیاب کرانا آسان نہیں، سوائے ان کے جن کے ہاتھ میں فیصلہ کن ووٹوں کی پتوار ہے اور ایک وزیراعظم کا مقتدرہ سے تنازع نیا نہیں ہے جس میں آخری نتیجے میں وزیراعظم کو سنگین نتائج بھگتنا پڑے۔ 

صرف صاف شفاف پرچی جمہوریت ہی نہیں، آئینی، انسانی، سیاسی، معاشی اور عوامی حقوق والی جمہوریہ درکار ہے جو عوام کی حکمرانی کو تسلیم کرے اور عوام کی اُمنگوں کے مطابق عوامی ترقی اور پائیدار خوشحالی کو یقینی بنائے۔ 

پاکستان عظیم اندرونی بحران کی لپیٹ میں ہے اور یہ غیر پائیدار بنیادوں پہ کھڑا ہے۔ اسے نئے ویژنری لیڈرز اور عوامی کایا پلٹ کی ضرورت ہے۔ وگرنہ مملکتِ خداداد یونہی اپنے لاینحل تضادات میں پھنسی رہے گی۔پاور پالیٹکس کا یہ کھیل اور کٹھ پتلی تماشے کا جمہوری اُمنگوں اور آئینی تقاضوں سے کیا سروکار؟