جلا ڈالو اقلیتوں کو ۔۔

وقت اشاعت:1اکتوبر2021

منمیت کور، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پرقانون  تو ہے مگر قانون کی عملداری نہیں ہے اور اگر  اقلیتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو سب خاموش ہو جاتے ہیں ۔

 حکومت پاکستان یہ دعوے تو کرتی ہے کہ اقلیتوں  کو مکمل آزادی ہے مگر حقائق بہت تلخ ہیں ۔ یہاں اقلیتی برادری کے افراد دیکھنے میں آزاد ہیں مگرمعاشرے میں ان کو حقیر جانا جاتا ہے ۔ کوئی بھی اقلیتی برادری کا رکن کسی بھی شہر ، علاقے میں جا کر رہ تو سکتا ہے مگر اسے مذہب کی آزادی نہیں ۔ ایسے افراد ڈر کر رہتے ہیں ۔ بعض جگہ نام تبدیل کر کے رہنا پڑتا ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جو چھپ کر اپنی عبادات کرنے پر مجبور ہیں ۔

مسیحی بھی کسی انجانے خوف کا شکار رہتے ہیں ۔ ہندو برادری  کی جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات سب کے سامنے ہیں ۔ سکھ  کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ  بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں  پشاور میں ایک سکھ حکیم کو کلینک میں گھس کر گولیاں مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔ آئین پاکستان میں غیر مسلم قرار دیئے گئے احمدیوں کو بھی چھپ کر رہنا پڑتا ہے انہیں بھی ہروقت جان کا خطرہ درپیش رہتا ہے ۔ دوسری جانب حکومت سب اچھا ہے کا راگ الاپ کر بری الذمہ ہو جاتی ہے ۔ پھر جب عالمی برادری ہم پر دباؤ ڈالتی ہے تو ہماری حکومتی ایسی رپورٹس کو ہی بے بنیاد قرار دے کر عالمی سازش قرار دے دیتی ہیںَ ۔ دیہات تو ایک طرف ۔۔ اب تو شہروں میں بھی جبری مذہب تبدیلی کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کی بھی جبری شادی سے گریز نہیں کیا جاتا۔ سندھ میں ہی دیکھ لیں ہندو لڑکیوں   سے شادی کے لئے جبری مذہب تبدیلی کرا ئی جاتی ہے بعض اوقات مسلم علما بھی   ایسے ظالموں کی پشت پناہی  کرجاتے ہیں ۔

اعداد و شمار اور میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب  میں سب سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے ہیں ۔  لگ بھگ 52فیصد  بچیاں اس ہوس کانشانہ بن چکی ہیں۔ سندھ میں یہ شرح 41 فیصد ہے ۔ اسی طرح وفاق  اور کے پی میں ڈیڑھ فیصد کے قریب اقلیتی خاندان اس ظلم کا شکار ہو چکے ہیں ۔ہندو کمیونٹی کو  اس سلسلے میں سب سے زیادہ ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔ اب توسکھ کمیونٹی بھی محفوظ نہیں رہی ۔  حوس کےپجاریوں نے  مذہب کی تبدیلی کا ڈرامہ رچا  کر سکھ بچیوں کو نشانہ بنایا ہے ۔

دو ہزار چودہ میں ایک ایساہی واقعہ مجھے یاد ہے جب پندرہ سالہ زیبا مسیح کو اس کے گاؤں کے اوباشوں نے زبردستی اغوا کرلیا ۔ ان افراد نے زیبا  کو زبردستی اسلام قبول کرایا اور ایک بڑی عمر کے شخص سے شادی کرا دی ۔ زیبا خوش قسمت رہی اور موقع ملتے ہی بھاگ نکلی ۔ معاملہ عدالت پہنچامگر یہ لٹک گیا۔

اسی طرح سترہ سال کی پوجا نامی لڑکی کو بھی اغوا کیا گیا۔ ہندو لڑکی کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کیا گیا اور کراچی کے مدرسے میں اس کی مرضی کے بغیر  قید کر دیا گیا۔  پوجا دباؤ پر کہتی ہے کہ اس نے مرضی سے اسلام قبول کیا ہے  مگر اس کے والدین یہ ماننے کو تیار نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ پوجا اپنی جان بچانے کے لئے ایسا کہہ رہی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ اگر اس نے متنازع بیان دیا تو اسے مار دیا جائے گا۔اس کے والدین نے بھی عدالت سے رجوع کیا مگر پوجا خوف اور دباؤ کی وجہ سے کورٹ میں پیش  نہیں ہوئی ۔ اب  حال ہی میں  مذہب کی جبری تبدیلی کے حوالے سے بل کی تیاریاں ہیں ۔ اس بل کی رو سے مذہب کی تبدیلی کے لئے بالغ ہونا ضروری ہے یعنی اٹھارہ سال  سے کم عمر افراد کا مذہب تبدیل نہیں ہو سکے گا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اس بل کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے ۔ دیگر مذہبی قوتیں اس بل کی شدید مخالف ہیں۔ ان کے مطابق یہ بل اسلام کے خلاف ہے ۔کیا یہ ظلم نہیں ؟اقلیتوں کے گھر جلائے جاتے ہیں ۔ عبادت گاہیں مسمار کی جاتی ہیں۔ پٹرول چھڑک کر قدیم ترین عبادت گاہوں کو بھی  راکھ کا ڈھیر بنانے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ کسی بھی مندر میں گھس کر توڑ پھوڑ عام سی بات لگتی ہے ۔

گزشتہ سال دسمبر میں  خیبر پختونخوا کے مندر کو ایسے ہی ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔ نفرت کی آگ میں سلگنے والے ان افراد نے پل بھر میں 1919 میں قائم ہونے والا قدیم مندر تباہ کر ڈالا۔ 1997میں بھی یہی کچھ ہوا اور پھر 2020 میں اسے مکمل ختم کر دیا گیا۔ مسیحی افراد کے گرجا گھر ہوں ، سکھوں کے گورودوارے ہوں یا ہندوؤں کے مندر یا پھر احمدیوں کی مساجد ۔۔ جنہیں مسجد لکھنا بھی ممنوع ہے ۔۔الغرض ہرطرف نفرت کی آگ ہے ۔ کبھی ان اقلیتوں کو ملک دشمن قراد دیا جاتا ہے تو کبھی فسادی ۔۔ کبھی  سب کو غدار کہا جاتا ہے تو کبھی اسلام کے دشمن ۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں ۔۔ درحقیقت اسلام تو امن کا دین ہے ۔ اسلام میں تو نفرت کی گنجائش ہی نہیں یہاں تک کے غیروں سے بھی حسن سلوک کی تعلیم ہے مگروطن عزیز میں معاملہ الٹ ہے ۔

یہ بھی پڑھیے

سچ تو یہ ہے کہ اقلیتوں پر اسی دباؤ، ظلم  کی وجہ سے عالمی رپورٹس ہماری حکومتوں کو آئینہ دکھاتی نظر آتی ہیں مگر ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کے بجائے ، اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے کے بجائے الٹا شور مچانا آتا ہے ۔ دوسری جانب مذہبی شدت پسند کوئی بات سننے سمجھنے کو تیار نہیں ۔ ان کا ایک ہی ایجنڈا  معلوم ہوتا ہے ۔۔ یعنی اقلیتوں کو جلا ڈالو۔۔