رنجیت سنگھ پھر بھی ہیرو رہے گا۔۔


لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو نقصان پہنچانے کے مناظر انتہائی تکلیف دہ تھے ۔ حملہ آور نے شاید یہ سوچا کہ وہ مجسمے کو نقصان پہنچا کر تاریخ کو مسخ کر دے گا یا شاید اس حرکت سے لوگوں کے دلوں میں چھپا احترام تار تار کر دے گا۔ اس گھناؤنے فعل سے جہاں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ملک میں بھی آوازیں اٹھنے لگیں ۔ رنجیت سنگھ ایک عہد کا نام ہے جسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جا چکا ہے ۔ ان کے گراں قدر کارناموں پر روشنی ڈالنے سے پہلے یہ واضح رہے کہ ملزم کسی مدرسے کا طالبعلم تھا اور یقینی طور پر اپنے کسی استاد  سے متاثر ہو کر ہی اس حرکت پر آمادہ ہوا ہوگا۔ افسوس کا مقام ہے کہ رنجیت سنگھ جیسی شخصیت کے بارے میں آگاہی  نہ ہونے کے وجہ سے اس مدرسے کے طالبعلم نے یہ حرکت کر ڈالی ۔ اس نے یہ سوچا ہی نہیں کہ رنجیت سنگھ کون تھا۔۔ کیا یہ ملک دشمن تھا۔۔ ؟ اگر ملک دشمن تھا تو حکومت نے ان کا مجسمہ کیوں نصب کیا ؟ ظاہر سی بات ہے حکومت جانتی ہے رنجیت سنگھ کون تھے ۔ ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنےو الے شہری جانتے ہیں کہ رنجیت سنگھ کی کیا اہمیت ہے ۔۔ صرف نہیں جانتا تو ایک خاص مائنڈ سیٹ ۔۔ جو نہ تو سیکھنا چاہتا ہے کچھ ۔۔ اور نہ ہی حقائق کو انصاف پسندی سے سمجھنا چاہتا ہے ۔

پورے پنجاب میں سکھوں کی بارہ مسلیں تھیں اور سب کی سب خود مختار بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکار تھیں۔ ان بارہ مسلوں میں سے ایک مسل گوجرانوالہ کے قریب آباد تھی جس کے سربراہ کے گھر1780ء میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ سترہ سال کا ہوا تو باپ نے اسے دوسری مسلوں کے ساتھ جنگوں پر روانہ کرنا شروع کر دیا۔
  بیس سال کی عمر میں وہ مسل کا سربراہ بن گیا۔ وہ  خوش قسمت اور ذہین شخص رنجیت سنگھ تھا۔۔ جس  کے چرچے دور دور تک ہونے لگے ۔ وہ بہادر تھا۔۔ بے مثال تھا۔۔ جو کہتا کر کےدکھاتا۔۔ اس  کے دل و دماغ میں ایک لگن تھی ۔۔ ایک جذبہ تھا۔۔ یہی وہ خصوصیات تھیں جو اسے دوسروں سےممتاز کرتی تھیں ۔۔۔ بڑی سلطنت کا خواب لئے رنجیت سنگھ نے طاقت دکھائی ۔۔ اور پھر وہ ہریانہ سے ملتان، پشاور اور کشمیر تک کے علاقے کا طاقتور ترین حکمران بن گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ۔ برصغیر کی تاریخ میں سکھوں کا وہ سردار  تھا جس  کی سلطنت پچاس سال تک قائم رہی۔
 انہوں نے سکھوں کی ایک فوج منظم تیار کی  جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلو میٹر دور شالا مار باغ کے قریب اس جگہ تھا جسے ’’بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔  1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ1839ء تک یہ چالیس  ہزارتک جا پہنچی ۔ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے  تھے ۔۔ رنجیت سنگھ کو علم تھا۔ ان کی فوج ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار تھی ۔ وہ ایک وقت میں لاہور کے محافظ تھے ۔ ۔ عوام ان سے والہانہ محبت کرتی تھی ۔۔ مگر کچھ اندرونی خلفشار اور سازشوں کی وجہ سے خالصہ فوج کو کمزور کیا گیا۔۔ بدھو کے آوے میں بیٹھے جرنیلوں  نے بھی بغاوت کی ۔۔ یوں انگریز فوج سے شکست  برداشت کرنا پڑی مگر رنجیت سنگھ کی بہادری   نے ہر جگہ دھاک  بٹھائی ۔

سکھ حکمرانی کا دور  تو ختم ہو گیا۔۔ مگر راج کرے گا خالصہ کا نعرہ خوب مشہور ہوا۔۔ تاریخ کے اوراق میں رنجیت سنگھ کو اہم مقام حاصل ہے  ۔ سکھوں کی ان سے محبت فطری ہے ۔ پاکستان  کا آئین اقلیتوں کے حقوق ، ان کے املاک  کے تحفظ کی بات کرتا ہے ۔ رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو دوبارہ بن گیا مگر یہ مائنڈ سیٹ پھر بے نقاب ہو گیا جو ہمیشہ سے ہی ملک کی بدنامی کا باعث بنتا چلا آرہا ہے ۔  امید ہے حکومت اس طرح کی حرکات  میں ملوث قانون شکنوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی