شراب زیادہ کون پی رہا ہے؟

منشیات کی روک تھام کے قوانین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر موجود ہیں اور مختلف شہروں کی طرح صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر پشاور میں بھی محتاط اندازے کے مطابق سالانہ 25 ہزار سے زائد منشیات فروشی کے مقدمات درج کئےجاتے ہیں ۔

 منشیات کی مختلف اقسام میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا نشہ شراب ہے جسے پینے والوں کا تعلق کم و بیش ہر مذہب اور رنگ و نسل سے ہے ۔شراب کی روک تھام میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تقریبا بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ  شراب کی فروخت میں عیسائی مذہب کے ماننے والوں کو زیادہ قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی کسی حد تک قابل یقین وجہ آئین پاکستان میں موجود کرسچن کمیونٹی کے لئے شراب پرمٹ کی اجازت ہے ۔دوسری جانب  زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو کرسچن کمیونٹی سے زیادہ شراب کی ترسیل اور استعمال میں کرپٹ عناصرفرنٹ لائن پر ہیں ۔ اسے مافیا کہہ لیں ، بااثر طبقہ کہہ لیں یا پھر کرپشن کے بادشاہ کہہ لیں ۔۔ ہر طرح سے یہی طبقہ شراب کے معاملے میں آگے ہے مگر قصور وار صرف مسیحی افراد کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔

معاملے کی کھوج لگانے نکلی تو پشاور کے ایک  ایکسائز انسپکٹر سے بات ہوئی جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر حقائق بتانے کی حامی بھر لی ۔ انہوں نے  ایسے چھپے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جس کے  بارے میں افسران بالا کو تو شاید معلوم ہو مگر عام شہری ان باتوں سے نا واقف ہے ۔

انہوں نے کہا کہ  کرسچن کمیونٹی کو شراب حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ قانون کے مطابق پرمٹ جاری کیا جاتا ہے جس پر وہ مقرر کردہ مقدار میں ہفتہ وار طے شدہ مقامات سے شراب حاصل کر سکتے ہیں مگر ان پرمٹ سے زیادہ تر فائدہ دیگر مذاہب کے افراد ہی اٹھاتے ہیں ۔ بہت سے افراد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں  سے بچنے اور شراب حاصل کرنے لئے  غیر مسلم افراد کو نا صرف ملازم رکھا  ہوا ہے بلکہ ان کے نام پر پرمٹ بھی بنوا رکھے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں 70 سے زائد لائسنس یافتہ شراب خانے موجود ہیں جہاں تمام شراب خانوں کے لائسنس

تو غیر مسلم افراد کے نام پر ہیں مگر  پس پردہ  شراب خانوں کی  مالکانہ شراکت داری  میں مسلمان بھی موجود ہیں جس بنا پر کراچی میں گزشتہ دو برسوں کے درمیان تین بار سند ھ ہائی کورٹ کی جانب سے شراب خانوں کو بند کرنے کے احکامات دیئے گئے ۔۔مگر قانونی داؤ پیچ جاننے والوں نے سپریم کورٹ سے  حکم امتناعی  حاصل کر رکھا ہے۔  

واضح رہے کہ  سندھ ہائی کورٹ میں شراب کی کرسچن اور ہندو کمیونٹی میں اجازت بارے تمام مذاہب کے علماء بھی اپنا بیان جمع کروا چکے ہیں جس میں یہ کہا گیا  کہ  شراب کسی مذہب میں جائز نہیں ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں  تحریک انصاف کے ہندو رکن رمیش کمار نے ملک بھر میں شراب کے استعمال پر پابندی کا بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا گیا۔

پشاور کے رہائشی مشتاق ڈینئل بھی پرمٹ ہولڈر ہیں اور اپنے استعمال کے لئے ہفتہ وار مقررہ مقدار میں شراب حاصل کرتے ہیں مگر مشتاق ڈینئل کا کہنا ہے کہ  بعض مسیحی  افراد نے اپنی فیملی کے ایک سے زائد ممبر یہاں تک کے خواتین کے نام پر بھی پرمٹ حاصل کر رکھا ہے تاکہ وافر مقدار میں شراب حاصل کر کے اسے فروخت کر سکیں ۔ مسلم مذہب میں شراب مکمل طور پر حرام ہے اور پاکستان میں مسلم افراد کے شراب پینے پر سزائیں بھی موجود ہیں مگر پابندی کا سامنا کرنے والے ایسے مسلم افراد جو شراب پینا چاہتے ہیں انہیں یہ شراب کرسچن کمیونٹی کے پرمٹ ہولڈر افراد چند اضافی رقم  کی خاطر فراہم کرتے ہیں ۔

منمیت کور کے کالم

یہ بھی پڑھیے

یہ بھی پڑھیے

چندا کمار پشاور کی ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقی معنوں میں شراب ایک نقصان دہ چیز ہے اور مسلم ہی نہیں بلکہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں میں بھی اس کی  ممانت ہے ۔ شراب کی ترسیل اور استعمال کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے تمام مذاہب کے مشائخ اور اراکین اسمبلی کی مشاورت سے قوانین میں تبدیلی کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ جلد ملک پاکستان سے شراب جیسی ممنوع ،حرام اور نقصان دہ چیز کا مکمل خاتمہ ہو سکے۔

۔۔