کیا انتہا پسندی ہی غالب رہے گی؟

کیا انتہا پسندی ہی غالب رہے گی؟ ابھی ” آج” ہی کی بات ہے  ڈاکٹر عبدالسلام کی  تصویر پر  کچھ گمراہ نوجوانوں کو کالک ملتے دیکھ کر دل دھل سا گیا ۔

روبینہ فیصل کینیڈا سے تعلق رکھتی ہیں۔ مصنفہ ، پروڈیوسر اور شاعرہ بھی ہیں ۔ سماجی اور سیاسی ایشوز پر لکھتی ہیں ۔

اہل اقتدار کے لئے  کچھ کام  کرنے کی ڈائریکشن یہ ہونی چاہئے کہ پاکستان میں سائنس،ادب  اور آرٹ کی جگہ مذہبی انتہا پسندی  ہی نہ مکمل طور پر غالب آجائے ۔ 

ڈاکٹرعبدالسلام کو عقیدے یا مذہب کی نہیں انسانیت کی آنکھ سے دیکھیں تو وہ محسن انسانیت ہیں ۔

 اس طرح ابھی “کل” کی  بات یہ ہے کہ 16 اکتوبر 1951 کو ہم نے  قاتل سید اکبر کو موقع پر ہی گولی مار کر محسن پاکستان ۔۔ہمارے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان کےساتھ اسی طرح احسان فراموشی کی جس طرح کا  آج بھی ہمارا چلن ہے ۔ 

لیاقت علی خان کے قاتل کو زندہ کیوں نہ پکڑا گیا ؟

کمپنی باغ جہاں محترم وزیر اعظم کا قتل ہوا ،اس کا نام لیاقت باغ نہ بھی رکھا جاتا تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔۔اگر ملک کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کی تفتیش ٹھیک خطوط پر ہوجاتی ۔ 

کل کے خساروں کو آج کی نسل سوچے اور پوچھے تاریخ کے اوراق سے کہ ۔۔سید اکبر کون تھا ؟ افغانی یا پاکستانی ؟یا وہ افغانی جسے اس کی حرکتوں کی وجہ سے افغانستان نے تو ملک بدر کر دیا تھا مگر پاکستان اسے وظیفے پر پال رہا تھا ۔۔

یہ بھی پڑھیئے:

 وزیر اعظم کے جلسے میں ایک پناہ گزین اگلی سیٹوں پر بیٹھا کیا کر رہا تھا ؟وہاں تک پہنچا کیسے ؟  اسے زندہ پکڑنے  کے  بجائے موقع پر گولی کیوں مار دی گئی ؟

یہ بھی پڑھیئے:قائد اعظم ایک عہد ساز شخصیت

کشمیر کے مسئلے پر لیاقت علی خان کا مکا بنا کر دکھانا قتل کا سبب  تھا؟یا روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں امریکی جھکاؤ کی کچھ کہانی تھی ؟؟ 

آخر کب تک قاتلوں کو مسند پر بٹھائیں گے؟

سوال تو پوچھیئے۔۔ سوچیئے تو سہی۔۔ورنہ جیسے وہیں اسی باغ میں 55 سال بعد ایک اور وزیر اعظم دن دیہاڑے قتل ہو جاتی ہیں ۔ وہ قتل بھی ایک راز رہتا ہے ۔۔ 

پچپن سال بعد بھی کوئی قتل ہو گا اور سڑکیں دھل جائیں گی ۔۔ذمہ دار افراد جواب دہی پر بس اتنا کہیں گے کہ فائل گم ہوگئی ۔۔ماضی کے سچ کی کھوج لگا کر اگر حال درست کرنے کی کوشش کی جائے۔۔ تو مستقبل کو بچایا جا سکتا ہے ۔

لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو گولی ماری گئی۔

برصغیر سے بادشاہ تو  چلے گئے ۔۔مگر پیچھے غلامانہ سوچ کے ساتھ حال ،ماضی اور مستقبل کےفیصلے کرنے والے غلام ابن غلام چھوڑ گئے ۔۔

ہماری آنے والی نسلوں کو ان زنجیروں کو توڑنا ہوگا ۔ سولہ اکتوبر کو  اس ملک کے سب سے بڑے عہدے دار کا قتل کرایا گیا۔ ۔یوں ملک کو اس اندھے مستقبل کی طرف  دھکیل دیا گیاتھا جہاں نہ انصاف ملے گا نہ سچ ۔۔

آج کے دن یہ سوچنا ہی شروع کر دیں کہ ہم قاتلوں کو مسند پر نہیں بٹھائیں گے ۔۔محسنوں کو بلا تمیز سر کا تاج بنائیں گے  تو  اس  دن کی سیاہی کچھ کم ہو جائے گی ۔۔ 

ورنہ  دھلی سڑکیں اور گم شد ہ فائلیں بھوت بن کر ہماری آنے والی نسلوں کا خون چوستی رہیں گی ۔