پریشان نہیں ہونا ۔۔

محمد ابراہیم ، صوابی

بشریٰ بی بی بھی آخر کا رقانون کے ریڈار میں آچکی ہیں ۔ خود گرفتاری دی یا  قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے یہ موضوع بحث نہیں ہے ۔ اصل مسئلہ پاکستانی سیاست کے طرز عمل کا ہے ۔ ملک بھر میں الیکشن کی صورتحال عیاں ہے ہر طرف گہما گہمی نظر آرہی ہے بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ گیم سیٹ ہے جس نے حکومت میں آنا  ہے وہ آکر رہے گا یہی نہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئندہ دس سال کا منصوبہ بن رہا ہے ن لیگ کو بظاہر ڈرائیونگ سیٹ دی جارہی ہے ۔ پس جتنے منہ اتنی باتیں۔۔ ایسے حالات میں سیاست چمکانے والوں کی بھی کمی نہیں ۔ سیاسی بیان بازی میں بعض سیاسی رہنما حد سے آگے نکل گئے ہیں جبکہ کئی ایسے بھی ہیں جو حالات سے سمجھوتہ کر کے مایوس ہیں اور مزید کہنے سے گریزاں ہیں ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے ؟ جب تحریک انصاف کی حکومت بنی تو تب بھی کچھ ایسے ہی حالات تھے ۔

اس وقت حزب اختلاف کی جماعتیں بعینہ یہی الزامات لگاتی تھیں کہ لیول پلینگ فیلڈ چھینا جارہا ہے ۔ دھاندلی کا منصوبہ بنایا جارہا ہے ۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی مقدمات سے بے حال تھیں ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں اس وقت سیاسی انتقامی کارروائیوں کا خوب شور مچا رہی تھیں ۔ ن لیگ کے رہنماؤں کے خلاف چن چن کر کیسز بنائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کوئی بھی میڈیا کی سکرین ایسی نہیں ہوتی تھی جب نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، احسن اقبال ، رانا ثنا اللہ ، آصف زرداری ، فریال تالپور سمیت دیگر رہنماؤں کی پیشی اور عدالتوں میں انٹری بطور بریکنگ نیوز نشر نہیں ہوتی تھیں ۔ تب بھی یہی پکڑ دھکڑ تھی، یہی بے یقینی تھی ۔

ن لیگی رہنما تب وہی کہتے تھے جو آج تحریک انصاف کے رہنما کہہ رہے ہیں ۔ تب آصف زرداری شکوے کرتے دکھائی دیتے تھے بعینہ ایسے ہی جیسے اب موجودہ بچی کچی تحریک انصاف کے رہنما شکوے کر رہے ہیں ۔ ان سب حالات  میں یہی سامنے آرہا ہے کہ کارروائیاں ، کیسز ، اقدامات ، مقدمات سب کچھ ویسا ہی ہے جو پہلے دیگر جماعتیں بھگت چکی ہیں ۔ ایسے میں تجزیہ کار یہ بھی کہنے پرمجبور ہیں کہ پاکستان میں سیاست کے کئی رخ ہیں ، کچھ بھی حتمی نہیں ۔ اگر آج کوئی مقدمات کے بھنور میں پھنس چکا ہے تو وہ پہلے اقتدار کے مزے لوٹ چکا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی پہلے مقدمات جھیل رہا تھا اب اس کی باری ہے ۔ لہذا موجودہ صورتحال میں کسی کو کوئی حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔ یہی پاکستانی سیاست کا انداز ہے ۔