می رقصم

“تمہید مت باندھنا کہ تم میرے باپ کے دوست ہو ، بھائی کے بزنس پارٹنر ہو یا تمہیں مجھ سے کوئی ذاتی کام ہے۔۔۔

لکھاری رخشندہ بتول کا تعلق جہلم سے ہے ۔ گورنمنٹ کالج فار ویمن میں شعبہ تدریس سے منسلک ہیں ۔آپ کے بیسیوں افسانے مختلف فورمز پر شائع ہو چکے ہیں


میں جانتا ہوں تم کون ہو اور کیوں آئے ہو “
میں مسکرایا،”کیا جانتے ہیں آپ ؟کون ہوں میں اور کیوں آیا ہوں ؟”میں نے گفتگو کو بڑھانے کی غرض سے پوچھا۔
“تم خوش گمان ہو۔اس خوش فہمی کا شکار ہو کہ تم دوسروں کی نفسیات کو سمجھتے ہو۔
ہاہا۔۔ سو کالڈ سائیکاٹرسٹ۔تم لوگوں کو تو خود علاج کی ضرورت ہے۔لیکن افسوس مرتے دم تک تم اسی وہم کا شکار رہو گے کہ تم دوسروں کو ان سے بہتر سمجھتے ہو۔ لگے رہو۔۔۔۔ بنتا ہے۔۔۔جن ڈگریوں کو اتنی بھاری فیس کے عوض تم نے حاصل کیا ہے ان میں اتنا عرصہ یہی تو سکھایا گیا کہ تم سمجھ سکتے ہو۔۔۔ تم جان سکتے ہو۔ ہا ہا ہا تم علاج کر سکتے ہو۔”
میں خاموشی سے سن رہا تھا اور مسکرا رہا تھا۔
کہنے لگا؛”یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے کوئی نفسیاتی عارضہ نہیں کیونکہ تمہارا ہر مریض یہی جملہ دہراتا ہوگا۔لیکن تمہاری اتنی مدد ضرور کر دوں گا کہ میرا مرض لاعلاج ہے۔”
میں مسکرایا،”یعنی مرض موجود ہے یہ تو مانتے ہیں نا آپ۔”
“ہاں میرا مرض آگہی ہے۔۔۔۔ میرا شعور ہی میرا عارضہ ہے۔ میں جان گیا ہوں۔”
“کیا جان گئے ہیں آپ ؟”
“سب جان گیا ہوں ۔وہ سب جسے ہم نے بہت سے پردوں میں چھپایا ہوا ہے ۔کہیں ڈگریوں کا پردہ، کہیں نظریات کا، کہیں مذہب کا، کہیں سیاست کا اور کہیں اس گلی سڑی معاشرت کا پرد
“اور آپ کو لگتا ہے آپ نے وہ پردہ چاک کر لیا ؟”میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“ہاں میں نے وہ پردہ چاک کر لیا۔میں نے صدیوں جستجو کا سفر طے کیا۔ کھوج میں لگا رہاکہ سچ کیا ہے ؟سچ کہاں ہے؟ اور بالآخر میں نے پا لیا۔”
“کیا ہے سچ ؟میں بھی جاننا چاہتا ہوں ۔”
“تم کیسے جان سکتے ہو؟ تم ایک خوش گمان ڈاکٹر۔۔۔ اس تعفن ذدہ معاشرے کے ایک پڑھے لکھے فرد۔۔۔ تم بھی تو ان سب میں سے ایک ہو جنہوں نے سچ پر پردہ ڈالا۔
ابھی میرے کمرے سے نکلتے ہوئے میری فیملی سے فیس وصول کرتے ہوئے جو تم کہو گے وہ ایک سچا شخص کیسے کہہ سکتا ہے؟
یہی کہوگے نا سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ کیا ٹھیک ہو جائے گا ؟کیا تمہارے اس آدھے گھنٹے کے سیشن پر میں اپنا صدیوں کا سفر قربان کر دوں گا ؟کیا تمہاری یہ کھوکھلی مسکراہٹ مجھے منافقت کا لبادہ لوٹا دے گی ؟
نہیں ۔۔۔۔میں تمہاری اس نام نہاد تہذیب و شائستگی سے کہیں آگے نکل آیا ہوں۔میں نے منافقت کا چولا اتار پھینکا ہے۔ تار تار کر ڈالا میں نے اس جھوٹ کے نقاب کو۔میں تھک گیا تھا ڈاکٹر۔ اس منافقت سے۔۔۔۔۔ لیکن میری اس تھکن کا کسی کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ کاش میری فیملی اس وقت کسی مسیحا، کسی ڈاکٹر کو تلاش کرتی۔ اس وقت میں لاعلاج نہیں تھا۔ میں ایک مہذب ،مکمل منافق انسان تھا۔ بہت خوش تھے سب۔۔۔۔میری لاعلمی پر ۔۔نہیں نہیں سوری میری سادگی پر ،میری شرافت پر ۔میں ہر کام وقت پر کرتا۔۔۔ دوستوں سے ملتا، گھر والوں کو وقت دیتا۔ اپنے کان اور آنکھیں بند رکھتا ۔
پھر پتا نہیں کب ڈاکٹر؟ مجھے یاد نہیں کب ؟
کب میں نے سوچنا شروع کر دیا۔ ٹھہرو میں کوشش کرتا ہوں تمہیں یاد کر کے بتاؤں کہ ایسا کب ہوا۔شاید دفتر جاتے ہوئے ۔۔۔جہاں دروازے پر رشوت کے خلاف لکھی احادیث اور آیات میرا سر فخر سے بلند کر دیتیں۔سینہ تان کے دفتر جاتا اپنے قائد کی تصویر کو سلام کرتا اور پھر ۔۔۔۔پھر تمام دن رشوت خوری اور بے ضمیری کے سودے دیکھتا اور شرماتا۔دفتر سے نکلتے ہوئے دیوار پر کندہ سنہری الفاظ پڑھتا اور گھر پہنچنے تک سوچتا رہتا کہ سچ کیا ہے ؟
سوچتا دفتر کے عذاب سے جان چھوٹی گھر والوں کو وقت دوں۔بچوں کو سچ بولنے کا لیکچر دیتا اور خود بیوی سے جھوٹ بول لیتا۔بچوں کو آہستہ آواز میں بات کرنے کی تلقین کرتا اور خود چیختا ۔پھر اپنی اس منافقت پر سوچ میں پڑ جاتا۔ چائے ٹھنڈی ہو جاتی اور میں سوچتا رہتا ۔اپنی سوچ سے تنگ آکر ٹی وی لگا لیتا ۔کبھی تلاوت ہونے لگتی تو ایمان تازہ ہوتا ۔پھر کوئی گیت لگ جاتا میں جھومنے لگتا ۔پھر کوئی ڈاکیومنٹری ۔۔۔دنیا کے رنگ دیکھتا تو حیرت اور خوشی سے سوچتا کہ کیسی جنت جیسی دنیا ہے میری ۔پھر خبریں لگ جاتیں۔دھماکے ،قتل ،چوری، ڈاکے ۔۔۔۔میں خوفزدہ ہو جاتا۔
پھر کوئی گانا ،پھر رنگ،پھر ہَولی۔۔۔پھر خون ۔۔۔خون ہی خون۔۔۔میں آنکھیں بند کر لیتا ۔
روزیہی سائیکل دوہرا رہا تھا۔ایک رات میں اتنا تھک گیا کہ میں نے اونچی آواز میں چیخنا شروع کر دیا ۔میری بیوی بھاگ کر گئی اور میرے باپ اور بھائی کو بلا لائی۔ مجھے کوئی سکون آور دوا دے دی گئی۔صبح جاگا تو میں اپنے رویئے پر شرمندہ تھا۔اپنی رات والی حرکت کے بارے میں سوچتا تو ہنستا جاتا۔ میرے قہقہے اتنے بلند ہوتے گئے کہ میرے بچے مجھ سے خوفزدہ ہو گئے ۔میں شرمندہ تھا میں نے کافی عرصہ کوشش کی کہ نارمل رہوں لیکن بے حسی نے دوبارہ مجھ سے سنگت قائم ہی نہ کی۔میں جب کبھی بہت تھک جاتا تو بے اختیار چیخنے لگتا یا بلند آواز میں ہنسنے لگتا ۔لوگ مجھے وہی کہنے لگے جس کا تم ابھی علاج کرنے آئے ہو۔”
وہ تھوڑی دیر خاموشی سے اپنی سرخ آنکھوں کو ہتھیلیوں سے رگڑتا رہا، پھر بولا،”بچے مجھے دیکھ کر دوسرے کمرے میں بھاگ جاتے۔ دوست میری باتوں پر ایک دوسرے کو آنکھ مار کر ہنستےیا دفتر والے مجھ سے جان چھڑاتے تو مہذب بننے کی کوشش کرنے لگتا۔۔۔ میں ڈر گیا ان سب سے۔۔۔
دعائیں مانگتا۔۔دین میں پناہ ڈھونڈتا۔ مذہبی کتابیں پڑھتا۔ لیکن وہاں بھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔میں پڑھتا چلا گیا۔ بڑے بڑے بت مسمار ہونے لگے۔ بڑے بڑے نام بَونے ہو گئے۔ بڑے بڑے گھر تہس نہس ہونے لگے۔ میری حیرانی بڑھتی گئی۔ کئی مندر گرے۔۔ کئی کلیسا خاک میں مل گئے لیکن ڈاکٹر میں پڑھتا چلا گیا ۔آگے اور آگے۔۔۔۔ دھند کے اس پار۔۔۔۔ خاموشی کی منزل سے آگے ۔۔۔۔۔کفر کے فتووں سے آگے۔۔۔۔ جہاں سے آگے سوچنا منع تھا وہاں سے بھی آگے۔۔۔پھر ایک رات حد ہو گئی شاید زلزلہ آیا۔۔۔۔مسجد کے در و دیوار بھی کانپنے لگے۔میں بہت بھاگا ۔کبھی ادھر سے دیوار سنبھالتا کبھی ادھر سے دَر۔۔۔ لیکن زلزلے کی شدت بہت زیادہ تھی۔ میں پسینے میں شرابور سر میں خاک۔۔۔ ادھر سے اُدھر۔ حیران ۔۔۔۔۔ششدر۔جب مجھے یقین ہوگیا کہ کچھ باقی نہیں بچے گا ،تمام پردے چاک ہو جائیں گے تو میں نے اپنا گریبان پھاڑا اور رقص کرنے لگا۔ یاد نہیں کتنی دیر ناچتا رہا۔کسی پہر میرے بابا اور بھائی مجھے چَوک سے اٹھا کر لائے اور یہاں رسیوں میں باندھ دیا۔”
میں اس کی گفتگو بغور سن رہا تھا کہ ایک دم اونچی آواز میں قہقہے لگانے لگا اور بولا،”اور مجھے دیکھو ڈاکٹر ۔میں ایک دنیا دار شخص کو اپنے دل کی باتیں بتا رہا ہوں ۔جو میرے عمر بھر کے تجربے کو بکواس سمجھتے ہوئے مجھے ڈپریشن کی دوا دے جائے گا۔۔۔ ہاہاہا مجھے دیکھو”
وہ ایک دم سنجیدہ ہوا اور چیخنے لگا ،”میں اس تعفن بھرے معاشرے کے ایک بت جیسے انسان کو یہ سب بتانے جا رہا ہوں۔جو میرے تجربے کو بیماری سمجھتا ہے اور میرا علاج کرنے آیا ہے۔”
وہ مجھے مارنے کی غرض سے گلدان اٹھانے آگے بڑھا لیکن اس کے پاؤں کی رسی نے اسے روک لیا۔وہ بہت اونچی آواز میں چیخ رہا تھا۔
میں انجیکشن بھرنے لگا اسے آرام کی سخت ضرورت تھی۔