میرا کمرہ

میرا کمرہ بھی شاید مجھے جانتا ہے بلکہ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بے جان چیز مجھے پہچانتا بھی ہے جہاں میں روز کئی خوابوں کی دبیز چادر آنکھوں پہ ڈالے سالوں کی تسلسل سے صرف خواب ہی دیکھتا ہوں

ابراہیم گرگ کا تعلق خضدار ،بلوچستان سےہے۔فرسٹ ایئر کے طالبعلم ہیں۔

کھبی کھبار مجھے لگتا ہے یہ کمرے سے میں بہت مانوس ہو چکا ہوں جہاں اسٹرے میں مڑے تڑے مسخ شدہ سگریٹوں کی لاشیں ہیں جہاں کھبی اندھیرا تو کھبی اجالا تو کھبی نیم اندھیرے میں نیم روشنی شاید یہ کمرہ میری مقدر سے بہت مشابہت رکھتا ہے شاید اسے بھی وہی کچھ مل رہے ہیں جنہیں وہ مانگتا ہی نہیں ہے

بے ترتیب کتابیں پرانے دور کے یادوں سے اٹے ڈائریاں جب میں بہت دیر بعد باہر سے آتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ میں اپنے زمانے سے بہت آگے نکل چکا ہوں لیکن میں جیسے ہی کمرے میں پیر رکھتا ہوں یہ طلسم ٹوٹ جاتا ہے میں واپس اسی جگے پہنچ جاتا ہوں جہاں میں پہلے تھا کمرے کی اس انسیت اپنائیت مہربانیوں کو دیکھ کر یہ کمرہ مجھے میرا اپنا بنایا ہوا ایک الگ سا جہاں لگتا ہے کھبی کھبار بہت سکون محسوس ہوتا ہے جب میں خود کو صرف خود تک اس بند کمرے تک محدود رکھتا ہوں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں میں ہمیشہ کیلئے خود کو
نہیں کرسکتا ہوں .
ہاں یہ بھی سچ ہے کہ جب میں بہت تھکے ہارے باہر سے آتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے یہ کمرہ بائیں پہلا کر مجھے اپنی آغوش میں لینے کیلئے بے تاب ہے
تب یہ سب بے جان چیزیں بھی مجھے کافی جاندار محسوس ہوتے ہیں یہ میرا واہمہ ہے یا حقیقت پر میں اس وہم میں کافی خوشی فیل کرتا ہوں،

کھبی کھبار میں سوچتا ہوں کاش میرے مرنے کے بعد لوگ میرے قبر کو بھی میرے ہی کمرے میں بناتے جہاں میں ہوتا میری کتابیں ہوتی میرے وہ کچھ چیزیں جنہیں میں سالوں سے اس کمرے میں دیکھتا ہوں اب تو انہیں دیکھتے ہی ایک قسم کا اطمینان سا ہونے لگتا ہےجیسے یہ سب چیزیں مجھے بھی پہچانتے ہیں،

شاید جہاں ہم رہتے ہیں اپنا سکھ دکھ خوشی غم ہر طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں پھر یہ محض ایک گھر یا ایک کمرہ نہیں بلکہ ہمارے لئے احساس سے آرستہ پیراستہ ایک جہاں سا ہوجاتا ہے اور اسی جگہ پہنچتے ہی ہم خود کو کافی پر سکون اور انتہائی محفوظ خیال کرتے ہیں تب ہم ان گھروں کمروں کے درو دیواروں سے ایک قسم کا رابطہ بنائے رکھتے ہیں جو ہر گزرتے مدت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوجاتا ہے