ڈاکٹر ژواگو ۔۔ نوبل انعام یافتہ ناول

محسن علی خاں، سپر لیڈافسانہ ۔

روسی ادب سے مجھے کلاسک فلم ” ڈاکٹر ژواگو ” نے متعارف کروایا تھا۔ تین گھنٹے سے اوپر فلم ایک نشست میں دیکھی اور کئی دن اس کے رومانس میں مبتلا رہا (اب یہ لکھتے ہوئے پھر فیلنگز آرہی ہیں)۔ فلم دیکھنے کے کچھ دن بعد پھر دل کیا دوبارہ فلم دیکھنے کو، ایک سرد رات نزلہ زکام سے بوجھل طبیعت ہلکی کرنے کے لیے جوشاندہ کا کپ بنا کر فلم دیکھنے بیٹھ گیا، دوبارہ فلم دیکھی، کافی دیر اپنی روح کو روس کے سرد خطے میں گھماتا رہا۔

فلم کا پلاٹ چونکہ مشہور روسی ادیب بورس پیسترنک کے نوبل انعام یافتہ ناول ” ڈاکٹر ژواگو ” سے ماخوذ تھا، اس لئے ناول کی تلاش میں گوگل دیکھا تو آن لائن پی ڈی ایف فارمیٹ میں دستیاب ملا، لیکن مجھے اس کی تلاش نہیں تھی۔ مجھے تلاش تھی اس پبلشر کی جسے صبح پہلی فرصت میں آڈر کرتا، تھوڑی سی تگ ودو کے بعد وہ بھی مل گیا، اگلے دن آڈر کیا، تیسرے دن ناول مل گیا۔

جب ناول پڑھا، تو کئی دن تک اس کے خمار میں رہا۔ کبھی بالشویک انقلاب والوں کے ساتھ خوابوں میں پھرتا رہا، کبھی اس ناول میں چلتی ٹرین سے برف کی چادر اوڑھے میدان کے حُسن میں مبہوت رہا۔ کبھی کھیت و کھلیانوں میں روسی کسانوں کی آنکھوں میں نظر آنے والی اُمید کو دیکھتا رہا۔ کبھی کئی گھنٹوں تک نہ ختم ہونے والے جنگلات میں گھومتا رہا۔ ایسے ہی ایک دن جھیل بائکل کی طرف چل نکلا۔ ٹرین کی سیٹی کہے واپس آؤ، اگلی منزل پر چلتے ہیں، دل کی دھڑکن کہے، جھیل کے پانیوں میں اُتر جاؤ، خواب سے بیدار نہ ہوتا تو یہ راز نہ رہتا، کہ میں ٹرین پر واپس آگیا تھا یا پھر جھیل کے پانیوں میں اُتر کر تیرنا بھول گیا تھا۔

ماسکو میں جب چاند اوپر آجاۓ، اس کی روشنی ہر چیز کو اپنے رنگ کی چادر پہنا دے۔ ستونوں والی عمارتیں اپنے ساۓ کو زمین پر سفید قالین کی مانند بچھا دیں۔ ایسا گمان ہو کہ چاندنی رات میں برف کی دبیز تہیں زمین پر محو استراحت ہیں۔ انقلاب کی انگڑائی لیتی گلیاں، مکانوں کی کھلی ہوئی کھڑکیاں چاند سے مدھم روشنی مستعار لیں۔ وہ روشنی شب خوابی کا لباس بن کر شیشے کی مانند بدنوں پر لپٹ رہی ہو۔ باغیچوں میں اناج کی بالیاں ہوا کے دوش بل کھائیں۔ اس رومانوی اور افسانوی سکوت کو کوئی دلکش آواز کسی نغمہ سے بھر دے۔ ہر طرف سے خوشبو ان راستوں کی طرف بڑھیں جہاں صرف جنگ، انقلاب، تباہی، ہلاکت، گولہ باری، آگ کے شعلے تھے۔ زار روس اپنی سانسیں گن رہا تھا۔ دور کہیں مزدوروں کی ٹولی گیت گاتے ہوۓ جارہی تھی۔

الوداع اے کارخانے الوداع

الوداع اے مشینوں اور کانوں الوداع

مالک کی روٹی اب میرے لیے باسی ہو چکی ہے

اور میں صرف پانی پیتے پیتے تنگ آچکا ہوں

دریا کے کنارے ایک ہنس تیر رہا ہے

اس کے تیرنے سے پانی میں لہریں پڑ رہی ہیں

شراب میرے قدموں کو نہیں ڈگمگاتی

سینٹ پیٹرزبرگ کا موسم بہار، پگھلتی برف، ہوا میں مکھن اور شراب کی خوشبو، ندیوں میں اُترتی مرغابیاں، خاموش اسٹیشن، اخروٹ کے باغ، صنوبر اور جنگلی چیری کے جنگل، جھومتے درخت، پرندوں کا گانا، بلبل کے گیت، شبنم سے بھیگی گھاس۔

سب لوگ اپنا قدیم روسی لوک گیت گا رہے۔

جب وہ بلبل کی طرح سیٹی بجاتا ہے

جب وہ جنگل میں زور سے آواز لگاتا ہے

گھاس کانپنے لگتی ہے

پھولوں کی پنکھڑیاں بکھر جاتی ہیں

تاریک جنگل زمین پر جُھک جاتا ہے

ڈاکٹر ژواگو بلاشبہ بورس پیسترنک کا ایک ماسٹر پیس ہے۔ جس میں عظیم انقلاب کے کئی سالوں کو چھ سو صفحات میں اتنی تفصیل اور باریک جزیات سے لکھ دیا گیا ہے کہ آپ پورے روس میں گھوم پھر کر سب کرداروں سے خود مل رہے ہوتے۔

اس ناول میں ہر کردار اپنی کہانی لیے ہوۓ تھا جس پر بالشویک انقلاب کسی نہ کسی طور اثر انداز ہوا تھا۔ شاید ہی کسی طبقے کا کوئی فرد ایسا ہو جسے اس انقلابی دُھول نے نہ آ لیا ہو۔

یہی وجہ تھی کہ 1958ء میں اسٹاک ہوم سویڈن میں نوبل انعام کی کمیٹی نے اس ناول کو چُن لیا۔ لاکھوں کاپیاں فروخت ہوئیں، کئی ایڈیشن چھاپے گئے۔ لیکن انقلاب کے جس رُخ کو اس ناول میں موضوع بنایا گیا تھا اس کی وجہ سے پورے ملک میں غدار غدار کے نعرے لگ گئے۔ وطن بدر کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ بورس پیسترنک نے وطن سے محبت کا اظہار حکومت وقت سے ایک اپیل میں کیا۔ جس کے الفاظ تھے۔

“ میں اپنی پیدائش، اپنی زندگی اور اپنے نام اور کام سب کو روس کا صدقہ سمجھتا ہوں۔ میں یہ سوچ نہیں سکتا کہ روس کے باہر، روس سے الگ رہ کر میری کوئی حثیت ہو سکتی ہے۔ مجھ سے چاہے جو غلطی سرزد ہوئی ہو لیکن مجھے یہ گمان بھی نہ تھا کہ میں اپنے آپ کو ایک سیاسی مہم کا مرکز بنتے دیکھوں۔ مادر وطن سے باہر رہنا، اس کی سرحدوں سے دُور ہو جانا، میرے لیے موت سے کم نہیں ہے۔ میری التجا ہے کہ مجھے ملک سے باہر چلے جانے پر مجبور نہ کیا جاۓ اور یہ سخت کاروائی، یہ سزا مجھ پر نہ آزمائی جاۓ۔ میں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سوویت ادب کی تھوڑی بہت خدمت ضرور کی ہے اور آئندہ بھی میں اس کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہوں”۔

بورس بنیادی طور پر جنگ مخالف شخص تھا۔ جنگ عظیم دوم میں بھی کھل کر اپنی راۓ کا اظہار کیا۔ بے شمار نظمیں لکھیں۔ بورس نے اپنا واضح موقف اپنایا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انقلاب کا دور گزر چکا ہے، اب ہنگاموں اور گڑ بڑ کا دور نہیں رہا، اب ایک نئی قوت پیدا ہو رہی ہے بغیر دکھائی دیے۔ خاموشی سے جیسے زمین پر گھاس اُگتی ہے۔ یہ قوت اس طرح بڑھ رہی ہے جیسے کوئی پھل ہو اور یہ قوت نوجوانوں میں پیدا ہو رہی ہے۔ اس دور کی اہمیت یہ ہے کہ ایک نئی آزادی پیدا ہو رہی ہے۔

وطن سے محبت اور انسانی تاریخ کے بہت بڑے انقلاب میں پنپنے والی عشق کی ایک لازوال داستان، موسم کی طرح بدلتے حالات میں بھی عہد وپیمان قائم رکھے ہوۓ ایک ڈاکٹر کی کہانی جس نے زندگی کے تمام محاذوں پر کٹھن جنگ لڑی۔