پیوٹن کا فون آگیا ، بائیڈن کا شاید اب مشکل

وقت اشاعت :26اگست2021

دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، واشنگٹن ڈی سی ۔ پیوٹن کا فون آگیا ، بائیڈن کا شاید اب مشکل ، تجزیہ کاروں نے پاکستان اور روس کے اعلیٰ سطح کے رابطے کو انتہائی اہم قراردے دیابعض  نے خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونے کا مشورہ دے دیا۔

دی سپر  لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق بدھ کے روز وزیراعظم عمران خان اور روسی صدر دلادمیر پیوٹن کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ وزیراعظم آفس کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔فورسز کے انخلا کی ڈیڈ لائن کے حوالے سے بات چیت ہوئی جبکہ افغانستان میں طالبان کے سیاسی سیٹ اپ  پر بھی مشاورت ہوئی ۔ وزیراعظم آفس کے مطابق دونوں رہنماؤں نے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔

بعض تجزیہ کار اس رابطے کو اہم ترین قرار دے  رہے ہیں ۔ ان کے مطابق روس سے اعلیٰ سطح کے رابطے کے بعد امریکہ سے روابط بہتر ہونے کے امکانات کم ہو رہے ہیں ۔ صدر بائیڈن عمران خان انتظامیہ سے بات کرنے سے گریزاں ہیں تاہم پینٹاگون پاکستان کی فوجی کمان سے متعدد مرتبہ رابطے کر چکا ہے ۔ یوں بظاہر یہ واضح ہو گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکومت سے زیادہ خوش نہیں ۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان روسی بلاک کا حصہ بن چکا ہے ۔  

 اس حوالے سے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار سہیل باقر نے کہا کہ پاکستان  اور روس میں حالیہ رابطہ رسمی ہے ۔ دونوں ممالک کے تعلقات اچھے ہیں مگر اس طرح کی مشاورت رسمی ہی ہوتی ہے ۔ روس کا افغانستان میں ظاہر سی بات ہے کوئی فوجی نہیں ۔ روسی شہری بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایسے میں صرف روس کا سفارتخانہ فعال ہے ۔ دونوں ممالک سفارتی سطح پر گفتگو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔  

روس یہ چاہے گا کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرتے وقت پاکستان طالبان  پر اپنے اثر رسوخ کی وجہ سے روس کے ساتھ مل کر چلے ۔اس تناظر میں اگر روس طالبان کے ساتھ ہاتھ ملا  کر آگے بڑھنا چاہتا ہے تو یقینی طور حالیہ رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔  اگر روس صرف اپنے سفارتخانے کی حد تک اپنے شہریوں کی حفاظت چاہتا ہے تو ایسی مشاورت سے کوئی خاص امید نہیں لگانی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گاکہ دنیا طالبان کی حکومت کو کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔ دنیا قبول کرے یا نہ کرے ، پاکستان طالبان کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اگرچہ دنیا کو دکھانے کے لئے علامتی طور پر  شاید  پاکستان طالبانی حکومت کو  قبول نہ کرے ۔