کیا جنرل ضیا کی پالیسیاں پھر آرہی ہیں ؟

ندیم چشتی ،اسلام آباد:

ملک بھرمیں یکساں نظام تعلیم کی بحث شدت اختیار کر گئی ہے۔تعلیمی ماہرین سمیت متعدد سماجی شخصیات نے مسودے پرکڑی تنقید کی ہے جبکہ بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو اس زیر گردش مجوزہ مسودے کی بنیادپر حکومت کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے ۔

مختلف حلقوں اور سوشل میڈیا پر جاری بحث کو ویکھتےہوئے وزارت تعلیم کے ذیلی شعبہ نیشنل کریکولم کونسل نے مسودے کو منظر عام پر لانے سے فی الوقت ہچکچاہٹ دکھائی ہے ۔

وزیراعظم عمران خان نے یکساں نظام تعلیم کے نفاذ کے لئے اپریل 2021کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے ۔ دوسری جانب وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی مختلف مواقع پر یکساں نظام تعلیم مقررہ وقت سے پہلے لانے کی نوید سنائی ہے ۔

یکساں نظام تعلیم میں خرابیاں

ماہر تعلیم پروفیسر کاشف ندیم نے سپر لیڈ نیوز سے گفتگومیں بتایا کہ یکساں نظام تعلیم میں خرابیاں عیاں ہیں ۔ حکومت جدید طرز تعلیم کی بجائے پرانی طرز تعلیم کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے ۔

نئے تجویز کردہ نظام تعلیم میں سقم ہیں۔ پوری دنیا میں حالات حاضرہ اور سائنس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی اور مضامین کے انتخاب کی آزادی دی جاتی ہے مگر یہاں سب الٹ ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔

انہوں نے کہا اس طرح حکومت صرف ایک خاص دائرے میں تعلیم کو بند کرنا چاہتی ہے ۔

ممتاز سائنسدان ڈاکٹر پرویز ھود بھائی متفق نہیں

شعبہ فزکس میں ملک کا نام روشن کرنےو الے عالمی سائنسدان پرویز ھود بھائی حکومتی مجوزہ یکساں نظام تعلیم سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے ۔

ڈاکٹر پرویز ھود بھائی ملک میں سائنس کے فروغ کے لئے جامع اصلاحات کے خواہاں ہیں

سپر لیڈ نیوز سے گفتگو میں انہوں نے اس نظام کو جنرل ضیا کی آمریت سے تعبیر کیا ۔انہوں نے کہاکہ یہ حکومت تعلیم پر جو حملہ کرنے لگی ہے وہ جنرل ضیا الحق بھی نہ کرسکے ۔

اس سے پہلے مختلف فورمز پر انہوں نے اس مجوزہ منصوبے پر شدید تنقید کی اور واضح کیا کہ پاکستان میں عالمی سطح کا معیار تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اسی آمرانہ سوچ سے ملک کے نوجوان سائنس جیسے سب سے اہم شعبے کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

مذہبی حلقوں کا اظہار اطمینان

اسلامی طرز تعلیم کو فروغ دینے پر بعض مذہبی حلقوں نے اطمینا ن کا اظہار کیا ہے ۔ مذہبی سکالر علامہ حنیف نقشبندی نے کہا کہ ملک میں شرعی تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے ۔

مسلم طرز تعلیم میں تمام امور کا احاطہ کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت مدارس کو اپنی تحویل میں لے مگر بنیادی شرعی نظام اور اسلامی کلچر کو بالائے طاق رکھنے کی جسارت نہ کرے ۔

پاکستان میں طلبا کی بڑی تعداد مدارس میں زیر تعلیم ہے

انہوں نے کہا کہ مسودے کے حوالے سے ابھی کچھ قبل کہنا قبل از وقت ہوگا۔

سپر لیڈ نیوز نے اس حوالے سے مسودے کی تفصیلی مندرجات حاصل کرلئے ہیں ۔

پری ون سے پانچویں کلاس کا نصاب

یکساں نصاب تعلیم کی رو سے قرآن مجید اور اسلامی طرز معاشرت پر فوکس کیاجائے گا۔

آئین پاکستان ، قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے افکار ، قومی سلامتی حب الوطنی ، قانون کی بالادستی ، سماجی ترقی جیسے مضامین شامل کئے جائیں گے ۔

اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی ، امن و برداشت کا فروغ ، انسانی حقوق ، صنفی برابری کے مضامین بھی نصاب کا حصہ ہونگے ۔ نصاب کی رو سے بچوں کے تحفظ سے متعلق مواد بھی شامل کیا جائےگا۔

کیا انگریزی کا مضمون ضروری نہیں ؟

فکر انگیز بات یہ سامنے آئی ہے کہ انگریزی کو اب لازمی مضمون کے بجائے بطور “زبان” شامل کیاجائےگا۔

اسی طرح اسلامیات کامضمون گریڈ تین کےبجائے گریڈ ون سے ہی پڑھایا جائے گا۔ یکساں نظام تعلیم مسودے میں چوتھی اور پانچوں جماعت کے طلبہ کو جنرل سائنس مضمون میں جدید ٹیکنالوجی کا مواد شامل کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے ۔

جمہوریت اور قدیم تہذیبوں سے متعلق بھی مضا مین بھی مسودے کا حصہ ہیں ۔

نئے مسودے کی رو سے نصاب میں قرآن مجید کی تعلیم سے متعلق نئے اسباق شامل کئے جائیں گے ۔

ناظرہ تعلیم ضروری ہوگی ۔پہلی جماعت سے دسویں تک کل 200احادیث پڑھائی جائیں گی ۔ تاہم یہ احادیث کونسی ہوں گی ا س حوالےسے حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔