پھر وہی آگ اور خون کا کھیل

وطن عزیز کے امن کو تار تار کرنے کے لئے دشمن قوتیں پھر سے متحرک ہو چکی ہیں ۔ اس مرتبہ پھر پشاور کو ہی نشانہ بنا کر نہتے عوام کو گویا یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تاحال موجود ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی بھی رنگ ، نسل مذہب سے تعلق رکھتا ہو اپنی اپنی عبادات کی محفوظ ادائیگی بہرحال سب کا حق ہے ۔

میرا تعلق سکھ کمیونٹی سے ہے مگر نماز جمعہ کے دوران نمازیوں کو ٹارگٹ کرنے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔ شہر کا امن ایک مرتبہ پھر بے یقینی کے بادلوں میں چھپ سا رہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق خو د کش بمبار نے پہلے گلی میں کھڑے پولیس اہلکاروں کو ٹارگٹ کیا اور پھر تسلی سے مسجد کے ہال میں پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف دھواں پھیل گیا جہاں نماز کے لئے خطبہ دیاجارہا تھا وہیں چیخ و پکار شروع ہو گئی ۔ نمازیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی بمبار اچانک نمودار  ہو کر انسانیت کا قاتل بنتے ہوئے کسی باپ سے بیٹا چھین لے گا تو کسی بیٹے  کےسر سے باپ کا سایہ اٹھا لے گا۔ یہ سب ظلم کی انتہا ہے ۔ شہر میں امن و امان  برقرار رکھنے اور بہتر  سکیورٹی کے لئے حکومت نے  اقدامات کے دعوے تو بہت کر رکھے ہیں مگر شہری اس واقعے کے بعد خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں ۔

پشاور کی اقلیتی برادری بھی خوف کا شکار ہے ۔ اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ عام ہے ۔ ایسے میں یہ  منظم واردات کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ۔ قصہ خوانی بازار کی گلی کوچہ رسالدارمیں اہل تشیع افراد رہتے ہیں ۔ یہاں بازار میں بھی زیادہ تراہل تشیع افراد کے کاروبار ہیں ۔ اس دھماکے کے بعد میں ان سب کا کرب محسوس کر سکتی ہوں ۔ کیا بیت رہی ہو گی ان ماؤں کے دلوں میں جنہوں نے اپنے ہی لخت جگروں کو اپنےاہل خانہ کو نماز جمعہ کے لئے بھیجا ہوگا۔

دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے واقعے کا نوٹس لے رکھا ہے ۔ وزیر داخلہ مسلسل صوبائی حکومت سے رابطے میں ہیں ۔ شیخ رشید کے مطابق یہ دھماکا غیر ملکی قوتوں نے کرایا ہے ۔ یہ وہی قوتیں ہیں جو پاکستان میں امن نہیں چاہتیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیسے ہی آسٹریلوی ٹیم یہاں آئی ان  امن کے دشمنوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی ۔ اسی طرح پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز ہارون رشید نےتصدیق کی کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا جس کے دوران گیٹ پر موجود پولیس اہلکاروں کو پہلے نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور اکیلا آیا اور سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ علاقے کی مکمل ریکی کر چکا ہے اور ان تنگ گلیوں کے چپے چپے سے واقف ہے ۔ حملہ آور نے مسجد میں گھس کر اس وقت دھماکہ کیا جب امام صاحب خطبہ دے رہے تھے ۔

اس دھماکے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے پاکستانی یہ سننے کے بجائے حکومت وقت سے سکیورٹی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اگر حکومت کے پاس دہشت گردی کی اطلاعات تھیں تو کیا ہی اچھا ہوتا ہر عبادت گاہ کو مناسب سکیورٹی فراہم کی جاتی ۔ کم از کم حساس علاقوں کی عبادت گاہوں میں اب بھی سکیورٹی کی ضرورت ہے ۔ یہ عبادت گاہیں کسی بھی مذہب کی ہوں ریاست کی نظر میں برابر سکیورٹی کی حقدار ہونی چاہئیں لیکن ستم یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ ہر بڑے سانحے کے بعد خواب غفلت سےجاگتی ہے اور کچھ وقت کے لئے اقدامات کرتی ہے جس کے بعد دوبارہ وہی سستی غالب آجاتی ہے ۔ امید ہے شہر کے سکیورٹی پلان کا از سر نو جائزہ لیا جائےگااور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔