کیا ایسے ہی مرنے دیں ؟

منمیت کور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ۔ عالمی امور، انسانی حقوق اور سماجی ایشوز پر لکھتی ہیں۔ انہیں ٹویٹر پر فالو کیا جاسکتا ہے

معاشرے میں ایسے گوہر نایاب بھی ہیں جولوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں ۔
ایسے افراد کو ریاست تو زیادہ عزت دینا پسند نہیں کرتی تاہم معاشرے میں کسی حد تک پذیرائی مل ہی جاتی ہے ۔
تاہم یہ عزت بھی سرسری ہوتی ہے ۔ اگر ایسے کسی شخص کا تعلق اقلیتی برادری سے ہوتو پاکستان میں حقارت اور سرد مہری ہی مقدر بن جاتی ہے ۔

بعض حلقے یہ سچائی تسلیم کرنے کے بجائے محض مفروضوں کی بنیاد پر اقلیتوں کے حقوق کا شور مچاتے ہیں ۔تاہم تلخ حقیقت یہی ہے کہ جس معاشرے میں عدم مساوات ہوں وہاں ترقی خواب نظر آتی ہے ۔


کسی شخص کی جان بچانا سب سے پسندیدہ فعل مانا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر وں کو مسیحا کہا جاتاہے ۔ لیکن کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جو نظروں سے اوجھل رہتےہیں۔

انہی میں سے ایک شعبہ لائف گارڈز یا غوطہ خوروں کا بھی ہے ۔ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر دوسروں کی جان بچانا انسانیت کی سب سے بڑی خدمت کہی جاسکتی ہے ۔

میرے مطابق انسانیت کسی رنگ نسل یا مذہب سے منسوب نہیں ۔ کچھ ایسی ہی مثال یہ شخصیت تھی جس کی میں آج بات کرنا چاہتی ہوں۔

مسیحی نوجوان حال ہی میں ریسکیو سروس میں بھرتی ہوا تھا
فوٹو کریڈٹ: سپر لیڈ نیوز


یہ نوجوان لائف گارڈ تو نہیں تھا مگر ماہر غوطہ خور ضرور تھا۔ مسیحی برادری کا ابھرتا ہوا ستارہ تھا۔پشاور کے پسماندہ علاقے یکہ توت سے تعلق رکھتا تھا۔

چوبیس سالہ شیروز رگبی کا بہترین کھلاڑی بھی تھا۔ اس نے عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرتے ہوئے رگبی مقابلوں میں بہترین کھیل سے توجہ حاصل کی ۔

اس نوجوان کے جذبے کو دیکھ کر اس کی موت کا یقین نہیں آتا۔
پسماندہ علاقے میں پروان چڑھنے کے باوجود وطن کی محبت
سے سرشار تھا۔ ہر وقت کچھ کر دکھانے کی جستجو۔۔
پانی کی موجوں سے مقابلہ کرنا اس کا فن تھا۔ گہرے پانی میں غوطہ لگانا اس کی پہچان تھی ۔

حال ہی میں ریسکیو سروس میں بھرتی ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔
شیروز بطور ریسکیو ورکر تو بھرتی نہ ہوسکا مگر اس کو کمپیوٹر آپریٹر کی نوکری مل گئی ۔

منمیت کور کے دیگر کالم پڑھیئے : کس سے کریں فریاد

شیروز کی آنکھوں کی چمک اس دھرتی سے محبت کی ترجمانی کرتی تھی ۔لیکن قسمت کو اس محبت اور محب الوطنی کا زیادہ ساتھ قبول نہ تھا۔ عید کے ایام میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پکنک
پر گیا مگر پھر کبھی واپس نہ آیا۔


شیروز دریائے سندھ میں صوابی کے مقام پر گہرے پانی میں
اترا اورپھر ہمیشہ کے لئے ان بے رحم موجوں کی آغوش میں چلا گیا

اہل خانہ اسے آوازیں دیتے رہ گئے مگر کوئی سراغ نہ ملا ۔ اس جیسے ہی ماہر غوطہ خور بلوائے گئے جنہوں نے چار گھنٹے کی مشقت کے بعد اس کی لاش ڈھونڈ نکالی ۔


شیروز کے اہل خانہ غم سے نڈھال ہیں ۔ شکوے بہت ہیں مگر کسی کے پاس کوئی حل بھی نہیں ۔ اس مسیحی نوجوان نے مختلف تقاریر میں کئی مرتبہ اول پوزیشن حاصل کی۔

رگبی کے کھیل میں مہارت سے نام بنانے کی کوشش کی ۔ ماہر تیراک اور ماہر غوطہ خور۔۔۔
کیا کمیونٹی یا گراس روٹ لیول پر ایسے نوجوانوں کو ریاستی دھارے میں لانے کا انتظام ہے ؟ اگر ایک بندہ ماہرغوطہ خور ہے تو اس کو ریاست کیوں مزید تربیت دے کر اس کی صلاحیتوں میں اضافہ نہیں کرسکتی ؟

یقینا شیروز کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا۔ اور یقینی طور پر اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ۔بس دل میں ایک خلش ضرور بے چین کرتی ہے ۔ ایسے ہنر مند نوجوان بہتر مستقبل کے مستحق ہیں ۔ ان کو معاشرے میں مناسب مقام دینا ہوگا۔

کیا حکومت کوئی توجہ دے گی ؟

حکومت کو ایسے ہیرے تراش کر مزید نکھارنے ہوں گے ۔ غوطہ خوری کوئی آسان کام نہیں ۔ لیکن جو شخص یہ کام جانتا ہو۔ اسے مزید تربیت دے کر دوسروں کی جانیں بچانے پر مامور کیا جا سکتا ہے ۔

دریائے سندھ میں ہر سال سینکڑوں لوگ ڈوب جاتے ہیں ۔ غوطہ خور بغیر مناسب سہولیات کے ریسکیو کرتے ہیں ۔
فوٹو کریڈٹ :سپر لیڈ فائل

دریائے سندھ میں ہی ہر سال سینکڑوں افراد ڈوب کر یہ دنیا چھوڑ جاتے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ غریب ، بغیر یونیفارم ، بغیرحفاظتی سامان اور بغیر کسی سہولت کے غوطہ خور پانی میں اترتے ہیں ۔

ان غوطہ خوروں کی اپنی جان خطرے میں ہوتی ہے ۔ مگر کیا کوئی جانتا ہے کہ ان کی تنخواہ کتنی ہوگی ؟ دس ہزار، بیس ہزار یا حد پچیس ؟


شیروز اس دنیامیں نہیں ۔۔ مگر میں حکومت کی توجہ ضرور چاہوں گی ۔ سنبھالیں ان ہیروں کو ۔۔ اس سے پہلے کہ معاشرے میں خدمت خلق کرنے والے بیزار ہونے لگیں۔۔