انسدادِ غربت اور ای کامرس

ملک سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ یقینا ہر حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ آج عالمی سطح پر معاشی بقا کی جنگ معاشی میدان میں لڑی جا رہی ہے جس کا ہتھیار یقینی طور پر صرف علم ہے۔

محمد ناصر بٹ سینئر صحافی، بلاگر اور ڈیجیٹل میڈیا ایکسپرٹ ہیں ۔قارئین ان سے اس ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

[email protected]

ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ اگلے 50 سالوں میں دنیا کہاں کھڑی ہو گی؟ عالمی بحران کے باوجود ایمازون، ایپل، فیس بک اور گوگل کا کاروبار دن بدن بڑھ رہا ہے اور امریکہ میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کا کاروبار دوبارہ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ایمازون، فیس بک، ایپل اور گوگل کی گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی کاروباری رپورٹس میں ان کمپنیوں کو ہونے والے منافع اور آمدن کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ان تمام رپورٹس میں ایک چیز قدرِ مشترک تھی اور وہ یہ کہ پیداوار بڑھ رہی ہے اور اس میں سست وری کی کسی قسم کی کوئی علامات نہیں ہیں، اس دوران سب سے منافع بخش کمپنی ایمازون رہی ہے۔ ای کامرس اور آن لائن شاپنگ کی اس کمپنی نے تین مہینوں میں 96.1 ارب ڈالر کی اشیاءفروخت کیں، سال 2019ءکے مقابلہ یہ رقم 37 فیصد زیادہ تھی۔
آن لائن شاپنگ کا آغاز 1979ءمیں برطانیہ کے کاروباری شخص مائیکل ایلڈرک نے کیا تھا۔ ایلڈرک ترمیم شدہ گھریلو ٹیلی ویژن کو ٹیلیفون لائن کے ذریعہ ملٹی یوزر ٹرانزیکشن پروسیسنگ کمپیوٹر سے جوڑنے کے قابل تھا بعد میں یہ برطانیہ، آئرلینڈ اور سپین میں بھی فروخت ہوئے۔ اس نظام کی مارکیٹنگ 1980ءمیں کی گئی تھی اور اسے اس وقت بزنس ٹو بزنس سسٹم (بی ٹو بی) کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ 1960ءمیں الیکٹرانک ڈیٹا انٹرچینج (ای ڈی آئی) کی ترقی نے الیکٹرانک تجارت کی راہ ہموار کر دی تھی۔ ای ڈی آئی نے ایک کمپیوٹر سے دوسرے کمپیوٹر میں ڈیٹا منتقلی کی اجازت دے کر روایتی میلنگ اور دستاویزات کی فیکسنگ کی جگہ لے لی تھی۔
1982ءمیں فرانس نے ’منی ٹیل‘ نامی آن لائن سروس کا آغاز کیا جس نے ٹیلیفون لائنوں کے ذریعہ ویڈیو ٹیکس ٹرمینل مشین تک رسائی حاصل کی۔ ”منی ٹیل“ نامی ٹیلیفون صارفین کےلئے بالکل مفت تھا اور لاکھوں صارفین کو ایک کمپیوٹنگ نیٹ ورک سے منسلک کرتا تھا۔ 1997ءتک 70 لاکھ سے زیادہ گھروں میں ’منی ٹیل ٹرمینلز‘ موجود تھے۔ انٹرنیٹ کی کامیابی کے بعد ’منی ٹیل سسٹم‘ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔ ای کامرس کی تاریخ کا انٹرنیٹ کی تاریخ کے ساتھ انتہائی گہرا تعلق ہے۔ آن لائن شاپنگ کا عام استعمال اس وقت ممکن ہوا جب 1991ءمیں انٹرنیٹ کی رسائی عام لوگوں تک ہوئی۔ ایمازون امریکہ میں پہلی ای کامرس ویب سائٹوں میں سے ایک تھی جو آن لائن اپنی مصنوعات فروخت کرتی تھی اور اس کے بعد ہزاروں کمپنیوں نے اس میدان میں قدم رکھا۔
آج کے جدید دور میں ای کامرس یا الیکٹرانک کامرس کو اپنی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے دنیا بھر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جائے تو ای کامرس ایک ایسی چیز ہے جسے ہم روزانہ کی بنیاد پر استعمال کرتے ہیں، جیسے آن لائن بل کی ادائیگی کرنا یا آن لائن خریداری کرنا اور بہت سے دوسرے امور گھر بیٹھے اپنے فون کے ساتھ بآسانی سے سرانجام دے سکتے ہیں جو آج سے پہلے ممکن نہیں تھے۔ تھری اور فورجی کی سہولت اور سمارٹ فون کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے اب گھر اور تجارت ایک جگہ اکٹھے ہو گئے ہیں یعنی اب ہم گھر بیٹھ کر تجارت بھی کر سکتے ہیں اور خریداری کا عمل بھی انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ پہلے لوگ خریداری کیلئے بازاروں کا رخ کرتے تھے لیکن اب ایسا نہیں رہا خاص طور پر کووڈ 19 کے بعد دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن خریداری میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں موجودہ حکومت نے پہلی دفعہ ای کامرس پالیسی متعارف کرائی ہے۔ اس سلسلے میں چند دن قبل وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں انہوں نے ای کامرس کو ملکی معیشت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کوآسانیاں فراہم کرنا اور تاجر برادری کو درپیش رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ فری لانسرز، تعلیم یافتہ اور ہنرمند نوجوانوں کو روزگار کمانے میں سہولت دے۔ دونوں ادارے ای پالیسی سے استفادہ کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں۔
کسی بھی کاروبار کا فروغ اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب حکومتی سطح پر اس کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ای کامرس کے حوالے سے آگاہی دینے میں ان ایبلرز کے سربراہ ثاقب اظہر جن کا نام ای کامرس کے شعبے سے جڑے لوگوں کیلئے یقینا کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے انہوں نے چند دن قبل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ملاقات کی اور ای کامرس کے شعبے کی ترویج و ترقی کیلئے اپنے ادارے کی کارکردگی کے علاوہ موجودہ حالات کے تناظر میں ای کامرس کی شدید ضرورت سے بھی آگاہ کیا جس پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کے ادارے ان ایبلرز کے کام کو سراہا اور ادارے کے ساتھ مل کر ای کامرس کے فروغ کیلئے ہر ممکن سطح پر حکومتی تعاون یقین بھی دلایا۔
ثاقب اظہر بین الاقوامی ای کامرس چینلز میں ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور مصنوعات کی فروخت کا سالوں کا تجربہ رکھتے ہیں جبکہ وہ برطانیہ، مشرق وسطیٰ، پاکستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں مختلف کمپنیوں کے مشیر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ انہیں اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ڈی پی) جو دنیا کے 170 ممالک میں غربت کے خاتمے کیلئے کام کر رہا ہے نے پاکستان میں اپنے نمائندے کے طور پر منتخب کیا ہے۔
ای کامرس کی دنیا میں نئے داخل ہونے والے لوگوں کیلئے ثاقب اظہر کی کتاب ’لرن دی آرٹ آف پیسو انکم ویا انٹرنیشنل ای کامرس‘ یقینا رہنما ثابت ہو گی۔ انہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں سینکڑوں سے زیادہ لوگوں کو اپنا ای کامرس کاروبار شرو ع کرنے میں مدد کرنے کے بعد اپنے سارے علم کا احاطہ اس کتاب میں مرتب کیا ہے جبکہ ایمازون، ای بے اور دیگر آن لائن تجارتی پلیٹ فارمز سے اضافی آمدنی حاصل کرنے کے امکانات پر لوگوں کی مکمل رہنمائی کی گئی ہے۔
دنیا بھر میں تجارت کو فروغ دینے کیلئے ڈیجیٹل بنیادوں پر کام وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ ٹیکنالوجی کی فراوانی کے بعد سے رسمی نوکریوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ ملکی معیشت کی ترقی اور غربت کے خاتمے کیلئے ہماری نوجوان نسل خاص طور پر خواتین کو اس نئی کاروباری جہت کا حصہ بننے کیلئے ہمیں اپنے اپنے طور پر شعور اجاگر کرنا ہو گا اور ثاقب اظہر جیسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے جو یقینا سرمایہ دار اور ہنرمند افراد کے درمیان ایک مضبوط پل کا کردار ادا کر رہے ہیں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے تب ہی وزیراعظم عمران خان کے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے اور غربت کے خاتمے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے