اسرائیلی سیاسی مقاصد

کورونا وائرس کے باعث پوری دنیا میں اس وقت عجیب سی بے چینی کا عالم ہے۔ خوف و غم کی فضا کے بیچ اسرائیل نہتے فلسطینیوں کی آبادیوں پر راکٹ، مارٹر داغ رہا ہے۔ فلسطین میں حالیہ کشیدگی کا پس منظر یہ ہے کہ ناجائز ریاست اسرائیل نے 25 رمضان کو مسجد اقصی میں نمازیوں کو ہراساں اس وقت کیا کہ جب پاک سعودیہ تعلقات استوار کیے جا رہے تھے۔فلسطینی قتل و غارت کے نتیجے میں حماس کے مزاحمتی جواب پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا بلا خوف وخطر کہنا ہے کہ فلسطینی حملوں میں تیزی لائی جائے۔ چونکہ حماس نے کئی سالوں میں پہلی مرتبہ یروشلم پر راکٹ فائر کرکے ’’سرخ لکیر‘‘ کو عبور کیا ہے لہٰذا یہ تنازعہ کچھ عرصہ قائم رہ سکتاہے۔ قارئین بڑی افسوسناک بات ہے کہ اسرائیل وہ انٹرنیشنل کھلاڑی ہے کہ جس کی تحویل میں نیوکلیائی اسلحہ ہے اور اس نے مسلم علاقوں پر ایک عرصہ سے غاصبانہ قبضہ بھی کر رکھا ہے۔ 

کیا آپ نے نوٹ کیا ہے کہ گریٹر اسرائیل اور اَکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے ہاں الیکشن سے قبل ایک چونکا دینے والا رواج قرار پاچکا ہے۔ وہ یہ کہ سیاسی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مقبوضہ مسلم علاقوں میں جنگی حالات ترتیب دے کر عوام کی توجہ و دلچسپی اسی طرف مبذول کروا دی جائے۔ ہنگامی حالات اور افراتفری کے عالم میں الیکشن ہو جائیں۔ دوسری جانب میڈیا کی حمایت میں جعلی سروے کروایا جائے اور عوام کو اعتماد میں لیا جائے کہ وہ امیدوار کہ جس نے ہمیں دہشت گردی کے حملوں سے محفوظ رکھا وہی قیادت ہمارے لیے مستقبل میں مؤثر ہو گی۔غور کیجئے کہ مودی اور نیتن یاہو کا سیاسی پینترا تقریباً ایک ہی ہے۔ مودی نے الیکشن سے قبل پلوامہ ڈرامہ اور جھوٹی ائیر سٹرائیک کا دعوی کرکے اور بھارتی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے الیکشن میں واضح برتری حاصل کر لی تھی۔ کچھ اسی طرح کی شاطرانہ حکمتِ عملی نیتن یاہو گزشتہ 15 برس سے اپنائے ہوئے ہیں۔ماضی میں الیکشنز میں ان کی فتح دراصل ایسے خاکے کی مرہونِ منت ہے جس کے مطابق وہ اسرائیل کو مشرقِ وُسطیٰ کی خطرناک فورسز سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے لیے بھی سخت پالیسی اپنائی رکھی اور ہمیشہ امن وآشتی کی بحث میں سیکیورٹی خدشات کو سرفہرست رکھا۔ نیز وہ اسرائیل کی بقاء کو ایران سے لاحق خطرے کے حوالے سے بھی گاہے بگاہے الرٹ کر چکے ہیں۔ ایک موقع پر ان سے لائیو سوال کیاگیا کہ اگر وہ دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئے تو اسکا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام کا خیال خارج کر دیا جائے گا۔؟ انہوں نے اسکا جواب فوراً عبرانی زبان میں ایک لفظ میں ادا کیا کہ ’’آچن‘‘ جس کا مطلب ہے ’’بالکل…!‘‘۔ 

قارئین! یہ سب وہ سیاسی مقاصد کے حصول اور ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے کہتے ہیں کیونکہ نیتن یاہو پر الزامات ہیں کہ انہوں نے امیری کاروباری شخصیات سے تحفے تحائف وصول کرنے کے علاوہ جانبدار میڈیا کوریج حاصل کرنے کے لیے میڈیا انڈسٹری پر احسانات کی بارش کی۔ یاد رہے کہ نیتن یاہو پر رشوت،فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے تین کیسز میں فردِ جرم عائد ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ انتخابات میں انہیں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی بھرپور نصرت و تائید حاصل تھی۔ لیکن اب وائٹ ہاؤس میں جوبائیڈن ہیں اور نیتن یاہو نے بمشکل ہی جوبائیڈن کا تذکرہ اپنی تقاریر میں کیا ہے یعنی ابھی مربوط تعلقات معلق ہی ہیں۔ اسرائیلی ایگزیکٹ پول بتاتے ہیں کہ انتخابات میں نیتن یاہو کے لیے اقتدار برقرار رکھنے کے امکانات اتنے قوی نہیں جتنے گزشتہ الیکشن میں تھے۔کسی کے پاس واضح اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اگر سیاسی جماعتوں میں ڈیڈلاک پیدا ہوا تو اسرائیل کو پانچویں الیکشن کی جانب جانا پڑ سکتا ہے۔ جو بھی ہو نیتن یاہو کا سیاسی کیرئیر دھندلا نظر آ رہا ہے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ الیکشن میں لیکوڈ جماعت نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں تاہم نیتن یاہو کی بطور وزیراعظم بننے کے مخالفین زیادہ ہیں لیکن ایک مرکز پر سوچ رکتی ہے کہ مسلم، عیسائیت، یہودیت، ہندومت، بدھ مت، جین مت سکھ ازم،تاؤازم، سنتوازم وغیرہ ان سب کو بالائے طاق رکھ کر سوچا جائے کہ انسانیت سب سے بڑا دھرم ہے۔ یہ تو سرعام دہشتگردی ہے کہ سیاسی عزائم کے لیے نہتے لوگوں، بچوں، بوڑھوں پر بمباری کرکے جبروبربریت کو فروغ دیتے ہوئے مٹھی بھر شدت پسندوں کو خوش کیا جائے۔بلا تردّد اسرائیل کی چیرہ دستیوں کی داستان بڑی طویل ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ درندگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود امن عالم کے نام نہاد ٹھیکیداروں (یو این او) اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھ کا تارابنا ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ناکامی کے بعد کیا دنیا انسانوں کی آماجگاہ بن جائے گی۔؟ اقوامِ متحدہ کی خاموشی یقیناً تیسری عالمی جنگ کا بگل بجا دے گی لہٰذا اقوامِ متحدہ کو ہوش کے ناخن لینے میں مزید تاخیر کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔