تعلیم کے ساتھ کھلواڑ بند کرو۔۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جدید دور میں اگر کسی ملک وقوم کو شکست سے دوچار کرنا ہے تومختلف طریقوں کے استعمال سے اس ملک کے نوجوان طبقے کو معیاری تعلیم سے دور کردو۔وہ قوم خود ہی تباہ و برباد ہوجائے گی۔

آج کے جدید دور میں جہاں یورپی ممالک نت نئی ایجادات سے اپنا لوہا منوا رہا ہے ۔وہی مسلم امہ کے ممالک کا حال آپ خود دیکھ لیں سب کو تعلیم کی قدروقیمت معلوم ہوجائے گی۔آج کل جنگیں لڑ کر اپنے حریف ممالک کو ہرایا نہیں جارہا بلکہ تعلیمی میدان میں سبقت سے ٹیکنالوجی کی دنیا میں بڑے بڑے کارناموں سے حریف ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جارہاہے۔یہ تعلیم ہی کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا تھا۔

پاکستان میں معیار تعلیم کا یہ حال ہے کہ سکول ،کالجزاوریونیورسٹیز میں تمام امور بنا سفارش کے مکمل ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ایسا ہی ایک قابل ذکر قصہ  پیش خدمت ہے۔معاملہ کچھ یوں ہوا کہ پنجاب کی چار یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کیلئےاعلیٰ تعلیم کے امور میں انتہائی تجربہ کار شخصیات پر مشتمل سرچ کمیٹی قائم کی گئی۔اس کمیٹی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد آفتاب ہیں جو کہ پنجاب کی صف اول کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ہیں۔ سرچ کمیٹی میں لمز سے ڈاکٹر عارف بٹ، سابق پرنسپل این سی اے ڈاکٹر سلیمہ ہاشمی، سیکرٹری محکمہ ہائیر ایجوکیشن جاوید اقبال بخاری شامل ہیں۔

انتہائی قابل ممبران پر مشتمل کمیٹی کو سرگودھا یونیورسٹی،ساہیوال یونیورسٹی ، ایمرسن یونیورسٹی ملتان اورمحمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ملتان کے لئے نئے وائس چانسلر منتخب کرنا تھے۔ فاضل کمیٹی نےیونیورسٹی آف سرگودھا، یونیورسٹی آف ساہیوال، ایمرسن کالج یونیورسٹی اور نواز شریف یو ای ٹی ملتان کے نئے وائس چانسلرز بھرتی کےلئے 150 امیدواروں کو کال لیٹرز جاری کئے ۔ امیدواروں میں مختلف یونیورسٹیوں میں رہنے والےسابق وائس چانسلر ، ڈین حضرات اور سینئر اساتذہ شامل تھے۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب نے چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے لئے انٹرویوز کیلئے منتخب امیدواروں کو پہلے تو نامعلوم وجوہات کی بنا پرگذشتہ سال 27نومبر کو پیغام بھیج کراچانک انٹرویوزملتوی کردئیے تھے۔کچھ وقت کے بعد دسمبرمیں ملتان شہر کی دو یونیورسٹیوں سمیت پنجاب کی چار یونیورسٹیزمیں مستقل وائس چانسلر کی خالی اسامیوں پر تعیناتیوں کے لئے امیدواروں کو انٹرویوز کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیاگیا ۔ پروفیسرڈاکٹر خالد آفتاب کی سربراہی میں سرچ کمیٹی نے چار سرکاری یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز تعینات کرنے کیلئے 150 امیدواروں کے انٹرویوز کیے۔ سرچ کمیٹی نے پنجاب کی چار یونیورسٹیوں کیلئے وائس چانسلرز کے نام فائنل کردئیے۔جس کے بعد سیکرٹری کی جانب سے سمری وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ارسال کر دی گئی۔

وزیر اعلی پنجاب اور گورنر پنجاب کی منظوری کے بعد چاروں یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز تعینات ہونے ہی تھے کہ پھر اچانک کہانی میں ڈرامائی موڑآگیا۔ چند پروفیسرز کو سرچ کمیٹی کے میرٹ پر کیے فیصلے ایک آنکھ نہ بھائے اور انہوں نے سرچ کمیٹی کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کردیا۔

سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ اخبارات پر بھی سرچ کمیٹی کےجانبدارہونے اور منتخب کردہ سینئر ترین پروفیسرز حضرات کےخلاف زہر اگلا گیا۔سارے معاملے کو شکوک وشبہات میں ڈال کر معاملے کو بلاجواز کورٹ کچہری تک لے جایا گیا۔کورٹ سے سٹےآڈرجاری ہوااور عام عوام  کے  ذہنوں میں یہ تاثر دیا گیا کہ چند مفاد پرست پروفیسرز کے ٹولے نے سارے نظام کو ہی جکڑ لیاہے۔

خیردیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔اب پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت ہی اس سارے معاملےپر اپنا کوئی فیصلہ جاری کرےگی۔میرے مطابق ملتان سے وائس چانسلرز کے لئے انٹرویو کے شارٹ لسٹ ہونے والوں میں پروفیسر ڈاکٹرمحمد رمضان،پروفیسرڈاکٹر قدوس صہیب، ڈاکٹر امان اللہ، ڈاکٹر عمران شریف ، ڈاکٹر حکومت علی، پروفیسر ڈاکٹر عامر اعجاز، ڈاکٹر نوید احمد ،پروفیسر شوکت ملک ،ڈاکٹر اختر سمیت دیگر پروفیسرز شامل تھے۔

انتہائی قابل سرچ کمیٹی کے فیصلوں میں سرگودھا یونیورسٹی کیلئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے کارنیک انسٹیٹیوٹ کے چیف ریسرچ آفیسر ڈاکٹر قیصر عباس کا نام سمری میں پہلے نمبر پر شامل کیا گیا ہے۔سرچ کمیٹی نے محمد نواز شریف یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں یو ای ٹی لاہور کے ڈین آف الیکٹریکل ڈاکٹر محمد کامران کا نام پہلے نمبر پر فائنل کیا ہے۔فاضل سرچ کمیٹی نےساہیوال یونیورسٹی کیلئے ایگری کلچر یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈین ڈاکٹر جاوید اختر کو جبکہ ایمرسن یونیورسٹی ملتان میں سابق ڈی جی پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن پروفیسرڈاکٹر محمد رمضان کا نام فائنل کیا گیا ہے۔ لیکن اب  ایک خاص ٹولہ  اپنی طاقت کا استعمال کرکے سرچ کمیٹی کے فیصلے کو ختم کروانے کی بھرپور کوششیں کررہا ہے۔تاکہ میرٹ کے بجائے من پسند افراد کو لایا جا سکے ۔   

دیکھتے ہیں اس بار  میرٹ کی فتح ہوتی ہے یا پھر سفارشی کلچر ہی غالب آتا ہے ۔