معاشرے میں زوجین پر لطیفوں کا کلچر

ڈاکٹر:آپ کی بیوی کے تین دانت نکالنے پڑیں گےجس کی فیس دو ہزار روپے ہے۔

شوہر:جی آپ زبان بھی نکال دیں

4000 دوں گا۔۔۔اسی طرح کسی صاحب نے اپنے دوست سے سوال کیا کہ لمبی عمر کے لیے کیا کرنا چاہیے ؟

تابندہ خالد سماجی مسائل اور حالات حاضرہ پر لکھتی ہیں ۔ 2011 میں ایم-فل گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔قارئین ان سے اس ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں

[email protected]

جواب ملا۔ شادی ! ۔۔۔ پھر پوچھا گیا کہ اس سے کیا زندگی لمبی ہو جاتی ہے۔ جواب موصول ہوا کہ نہیں، پر زندگی لمبی لگنے لگتی ہے۔قارئین ہمارے ہاں شادی شدہ افراد سے متعلق لطیفوں کا ایک عجیب سا کلچر پروان چڑھ گیا ہے۔ سوشل میڈیا ویب سائٹس پر مزاح کے زمرے میں زوجین پر مبنی طنزیہ لطیفے دانستہ یا غیر دانستہ شیئر کیے جاتے ہیں۔ ایسے لطیفے ذیادہ تر مغربی میگزین سے نقل شدہ ہوتے ہیں۔جن میں یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بیوی ظالم اور شوہر مظلوم ہے۔ شوہر بیوی سے ڈرتا، گھر کا سارا کام کرتا، برتن دھوتا، تڑکے لگاتا ہے حتیٰ کہ یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ بیوی کو اشتعال دلوانے پر بیوی جب بیلنے سے اس کی خبر لیتی ہے تو موصوف کی چیخیں مریخ تک سنائی دیتی ہیں۔۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔بالکل نہیں۔ اصل بات سب کو معلوم ہے۔پاکستانی مرد بہت کم گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔

لطیفہ بنتا ہی ایسی باتوں پر ہے جو ذیادہ تر حقیقت کے برعکس ہوتا ہے ورنہ یہ روٹین کی بات ہوگی آپ اس کو حادثہ تو کہہ سکتےہیں مگر لطیفہ نہیں ! ایسا لگتا ہے کہ روز بروز مزاح کی آڑ میں شائستگی کی حد عبور ہو رہی ہے۔ ذیادہ لطیفے خواتین کو مرکوز رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔ تھیم کے مطابق ان کو کمتر دکھایا جاتا ہے ان کی صلاحیتوں (سلیقہ مندی، کفایت شعاری) کو نظر انداز کرکے منفی پہلو جیسے فضول خرچی، حد سے ذیادہ میک اپ کا استعمال وغیرہ جیسی دقیانوسی باتوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ایسے لطیفے پہلے پہل نجی محفلوں تک محدود ہوتے تھے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے زبان ذد عام ہوتےجا رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں زوجین کے خوبصورت رشتے میں بیزاری پیدا کرنے کا پروپیگنڈا بڑی عیاری سے ترتیب دیاجا رہا ہے۔اس کے زہریلے اثرات معاشرے میں سرایت کرتے جا رہے ہیں۔ نتیجتاً ہمارا معاشرہ جنسی طور پر بےچین معاشرہ بنتا جا رہا ہے اکثر لوگ تلاش میں رہتے ہیں اپنی تفریح کا سامان کس طرح سے کریں لہذا” گرل فرینڈ” کی بھونڈی راہ کے متلاشی بن رہے ہیں۔حالانکہ چشمِ فلک نے دیکھ لیا ہے کہ مغربی معاشروں نے انسان کو حیوانات کی سطح پر لاکھڑا کیا ہے اور نکاح کو فرسودہ رسم کہہ کر ریجیکٹ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں نسل انسانی تباہی سے دوچار رہے۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کا تربیتی لیول یہ بن چکا ہے کہ حرام معشوقہ پر شاعری اور حلال بیگم پر لطیفے لکھے جاتے ہیں۔ فطری جذبہ کا اظہار جائز فعل ہے لیکن کچھ حدود مالک حقیقی نے متعین کی ہیں۔ اکثر لوگ یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ اگر آپ صاف نیت کے ساتھ کسی سے دوستی کی راہیں استوار کرتے ہیں تو اس میں قباحت ہی کیا ہے ؟ارے میاں حیاء تو آنکھوں میں ہونی چاہیے۔۔۔ ایسا کہنے والوں کو ان معاملات کا شاید اندازہ ہی نہیں کہ بیوی سوتن برداشت نہیں کر سکتی تو گرل فرینڈ کو کیسے برداشت کرےگی ؟۔ سچ تو یہ ہے کہ مرد کی دو رخی پالیسی کی وجہ سے گھر کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض مرد حضرات نے گرل فرینڈ کے نام موبائل میں کچھ یوں سیو کیے ہوتے ہیں۔

شیدا قصائی ، بھولا مستری، اکرم پلمبر، گامو الیکڑیشن وغیرہ۔ اگر بیوی شوہر کو رنگے ہاتھ پکڑ لے تو کچھ شوہر بہترین ادکار ثابت ہوتے ہیں۔ “بیگم میری تو عادت ایسی نہیں ہے۔ یہ لڑکی۔۔۔ یہ میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے متعدد بار سمجھایا ہے مگربے سود !اب تم اس کی خوب خبر لو”بس پھر فون پر گھمسان کا رن پڑ جاتا ہے۔ پھر وہی شوہر کچھ دیر بعد گرل فرینڈ سے بیوی کے رویے پرعُذر خواہی کرتا ہے۔ ایسے میں گرل فرینڈ کہلانے والی خواتین سے سوال ہے کہ مرد صرف اپنی بیوی اور بچوں کا ہی ہوتا ہے بالآخر اس نے واپس وہیں جانا ہوتاہے ۔۔۔پھر آپ معاشرے میں کدھر سٹینڈ کرتی ہیں ؟۔آفیشلی یا قانونی طور پر کیا آپ کسی مرد کے خاندانی معاملات میں مداخلت کی کوئی اتھارٹی رکھتی ہیں۔۔۔ قطعاً نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خاندانوں اور اقوام کی عزت خواتین سے ہے لہذا کوئی ایسے ناگوار واقع کا حصہ بننے سے گریز کریں جس میں جگ ہنسائی کا خدشہ ہو۔یورپ میں گرل فرینڈز کا جو حال ہے اگر ہماری خواتین اسے دیکھ لیں تو بیوی کہلانے پر فخر کریں اور اپنے “قوام”یعنی شوہروں کی بے پناہ عزت کرنے لگیں۔ بیوی ایک اعزاز کا نام ہے جبکہ گرل فرینڈ کی کوئی حیثیت سرےسے ہی نہیں ہے۔ بیگمات شوہروں سے فرمائشیں کرتی ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ شوہر کی آسودگی کا باعث نہیں ہیں۔ بیوی ایک ابدی ساتھی کا ٹائٹل رکھتی ہے جو شوہر کے خوشی و غم کے لمحات کی ہمراز ہے۔ مرد حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے بیوی کی عزت و وقار پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔ گرل فرینڈ پر خرچ کرنے کی بجائے فیملی کے نان و نفقہ اور فرائض پر توجہ دیں تاکہ گھر جنت کا نمونہ بن سکے۔