خود کشی آخر کیوں ؟

وقت اشاعت:15مارچ2021

کورونا وباء کے دوران عائد پابندیوں کے نتیجے میں ذہنی صحت سے متعلق مسائل تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین نے حالیہ صورتحال کے تناظر میں خودکشی کے رجحان میں اضافے کا خدشہ ظاہر کر دیا ہے۔

تابندہ خالد سماجی مسائل اور حالات حاضرہ پر لکھتی ہیں ۔ 2011 میں ایم-فل گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔قارئین ان سے اس ای میل پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔

[email protected]

لاک ڈاؤن کے باعث بچوں اور نوجوانوں کی سماجی زندگی سمٹ گئی ہے۔ پاکستان میں خود کشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ شاید کچھ معاشرتی وجوہات اور ناقص رپورٹنگ کی بدولت زیادہ تعداد میں کیسسز رپورٹ نہیں ہوتے۔ عالمی ادارہ صحت کے سال 2012ء میں لگائے گئے تخمینہ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح ایک لاکھ افراد میں 7.5 فیصد تھی۔ جو یقینا اب فتنوں، غربت اور مایوسی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ چکی ہوگی۔ پاکستان میں  58فیصد خواتین گھریلو تنازعات سے تنگ آکر خودکشی کرتی ہیں۔ 36فیصد افراد دریا میں ڈوب کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ زہر کھا لیتے ہیں اور بعض خود کو گولی مار کر زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔

 خودکشی کے بے شمار عوامل ہو سکتے ہیں جیسے کراچی میں نادیہ اشرف نے خودکشی مبینہ طور پر اپنے سپروائزر کی طرف سے تھیسز کو مسترد کیے جانے کے بعد کی۔ خودکشی ایسا فعل ہے جس کے بارے میں ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سوچتے ضرور ہیں لیکن پھر کچھ ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو ہمیں زندگی کی طرف واپس کھینچ لاتی ہیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ایسا شخص یا تو ضرورت سے زیادہ پرجوش نظر آنے لگتا ہے یا تو سخت مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور اپنی زندگی کی بہت سی چیزوں کو سمیٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کئی دفعہ ہم ڈیپریشن زدہ شخص کی جنونی اور زندگی سے بغاوت والی باتوں پر دھیان نہیں دیتے۔ ہم اسکی مایوس و افسردہ باتوں کو جھٹک کر کہہ دیتے ہیں کہ ’’لو جی! یہ کیا بات ہوئی، جو تم سوچ رہے ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔ زندگی کی مثبت تصویر دیکھو، فلاں چیز پر شکر بجا لاؤ‘‘۔ دراصل ہم اپنی نظر سے اس شخص کو دیکھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ ہمدردی کا فلسفہ یہ ہے کہ متاثرہ شخص کی دنیا کو اُسکی نظر سے دیکھا جائے۔ 

ڈپریشن اور خودکشی کی سب سے بڑی وجہ تنہائی ہے۔ نوجوان سماجی میل جول سے زیادہ سوشل میڈیا کی کارستانی کا شکار ہیں۔ ہم اس خام خیالی میں ہیں کہ سوشل سائنس نے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ درحقیقت یہ ہمیں تنہا کر رہی ہیں:جاپانی ماہر نفسیات

ٹوکیو کی ٹیمپل یونیورسٹی کے ماہرِ نفسیات و تارونیشیدا کہتے ہیں کہ ڈپریشن اور خودکشی کی سب سے بڑی وجہ تنہائی ہے۔ اگر ہم آج کے دور کو دیکھیں تو نوجوان سماجی میل جول سے زیادہ سوشل میڈیا کی کارستانی کا شکار ہیں۔ ہم اس خام خیالی میں ہیں کہ سوشل سائنس نے ہمیں ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہے۔ درحقیقت یہ ہمیں تنہا کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر جتنا زیادہ طبقات، رہن سہن، طرزِ زندگی کا فرق نظر آتا ہے اتنا ہی لوگ زیادہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔

 سیدھی سی بات ہے کہ اگر کسی کے رشتہ داروں یا دوستوں میں کوئی آئے دن غیر ممالک کی سیروتفریح، مہنگی ہوٹلنگ اور ان کی لی گئی سیلفیاں شیئر کر رہا ہو تو وہ شخص جو کہ اتنی طاقت واستطاعت نہیں رکھتا اسکے اندر کچھ نہ کچھ حد تک احساسِ کمتری پیدا ہوگا۔ وہ اس سماجی تفریق کو اپنے ذہن پر طاری کریگا اور یوں اسکے لاشعور میںکہیں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ دنیا تو ان لوگوں کی ہے، میں تو بے کار ہوں۔ ایسا متاثرہ شخص تنہا ہو جائیگا اور لوگوں سے سلام اور ہیلو ہائے سے گریز ہی کریگا۔ یہی تنہائی انسان کو دیمک کی مانند اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہے۔

 تنہائی کے بارے میں ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ 16سے 24سال کی عمر کے نوجوان زیادہ تنہائی محسوس کرتے ہیں۔ تنہائی جب بیماری کی حد تک بڑھ جاتی ہے تو ذہن و جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں بھولنے کا مرض اور دیگر منفی رویے سامنے آتے ہیں۔ اسکا حل یہی ہے کہ لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہا جائے، اپنی تنہائی کو سوشل میڈیا پر بانٹنے کی بجائے اصل زندگی میں کسی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

عالمی ادارہ صحت کے سال 2012ء میں لگائے گئے تخمینہ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح ایک لاکھ افراد میں 7.5 فیصد تھی۔فوٹو کریڈٹ:بی بی سی اردو

 ایک ہسپتال میں دل کی سرجری یونٹ کے بارے ایک خوبصورت جملہ لکھا ہوا ہے کہ ’’اگر دل کھول لیتے یاروں کے ساتھ تو آج کھولنا نہ پڑتا اوزاروں کے ساتھ‘‘۔ یقینا دکھ بانٹنے سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ جوشخص افسردگی و تنہائی کا شکار رہتا ہے اسے ’’واکنگ وونڈڈ‘‘ کہا جاتا ہے یعنی ایسا فوجی جو جنگ میں زخمی ہوا ہے لیکن اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔

اٹل حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی ترقی و استحکام میں نوجوان طبقہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر وہ ذہنی خلفشار، انتشار یا انزائٹی کا شکار رہے گا تو اپنی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لاپائے گا۔ اس سنگین معاشرتی مسئلے کے حل کیلئے ہم سب کو اپنی زندگی گزارنے کے طریقوں اور سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔

سوشل میڈیا کا بے جا استعمال ایسا جال ہے جس میں ہم سب بڑی طرح پھنس چکے ہیں۔ واحد حل مذہبی واخلاقی مطالعہ میں مضمر ہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب ہو وہ انسانیت کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا تمام مکاتب فکر اور مذاہب کے پیروکاروں کو اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار سے جڑنا ہوگا۔