مدرسے کے قاری نے سالی کے ساتھ مراسم پر اپنا شاگرد ذبح کر ڈالا

مظہر اقبال گوندل ، سپر لیڈ نیوز۔
مدرسہ کے 16 سالہ بچے کے قتل کا یہ واقعہ دل دہلا دینے والا ہے۔ اس واقعہ سے والدین کے دلوں میں ایک عجیب انجانا سا خوف پیدا ہو گیا ہے۔ اس درد ناک واقعہ سے منڈی بہاؤالدین کے ہر شخص کی آنکھوں میں غم کے آنسو تھے۔
قتل کی ایک ایسی واردات جس میں ایک مدرسہ کے استاد نے ہی اپنے شاگرد کو جان سے مار دیا۔
منڈی بہاؤالدین کے گاؤں ساہنا کا رہائشی حنیف حسین ولد جلال دین مارچ کی 5 تاریخ کو ایک درخواست لے کر ڈی پی او منڈی بہاؤالدین سید علی رضا کے پاس پیش ہوا کہ میرا 16 سالہ بیٹا محمد حفیظ فیضان مدینہ مدرسہ محلہ شفقت آباد میں پڑھتا ہے، جو کہ یکم مارچ کی شام 6 بجے بعد نماز مغرب ٹیوشن پڑھانے لالہ زار کالونی گیا ۔لیکن تاحال واپس نہیں آیا ہے۔تمام رشتہ داروں اور متعلقہ افراد سے بھی پتہ کر لیا ہے۔لیکن ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔مجھے شبہ ہے کہ میرے بیٹے کو اغواء کر لیا گیا ہے۔میرے بیٹے کو تلاش کرنے میں میری مدد کی جائے۔
ڈی پی او سید علی رضا نے ایس ایچ او تھانہ سٹی عدیل ظفر بوسال کو فوری آفس بلا کر ٹاسک دیا کہ فوری ان کا مقدمہ درج کر کے بچہ تلاش کیا جائے۔
ایس ایچ او عدیل ظفر بوسال نے اسی دن ایف آئی آر نمبر 394 درج کر کے بچہ کی تلاش شروع کر دی۔
ایس ایچ او عدیل سب سے پہلے اپنی ٹیم کے ذریعے مدرسہ پہنچا اور وہاں پر موجود بچے کے استاد مولوی شہزاد مزمل سے ملاقات کی اور طالب علم محمد حفیظ حسن کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ جس پر بچے کے استاد نے بتایا کہ وہ شام کو ٹیوشن پڑھانے گیا لیکن واپس نہیں آیا ہے۔ عدیل ظفر بوسال نے اپنے طریقہ تفتیش کے مطابق مولوی سے مختلف سوالات پوچھے جس پر اس نے بہت ہوشیاری سے تمام جواب دئیے۔
یہ ساری معلومات لے کر ایس ایچ او تھانہ سٹی گوڈھا محلہ پہنچا جہاں طالب علم محمد حفیظ ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ تو انہوں نے بتایا کہ وہ بچہ ہم سے 2 ہزار روپے لے کر چھٹی لے گیا تھا کہ کہیں جانا ہے اور بہت خوش تھا۔
عدیل ظفر سب انسپکٹر یہ سب معلومات لے کر دوسری جگہ پہنچا جہاں طالب علم قرآن مجید پڑھانے آتا تھا۔ لیکن وہاں سے بھی کوئی نشان نہیں ملا۔
ایس ایچ او سٹی دوبارہ مدرسہ پہنچا مدرسہ کے استاد سے یوں پرسرار طریقے سے گم ہونے والے طالب علم کے متعلق مزید معلومات اکٹھی کرنے ،تو مولوی استاد شہزاد مزمل نے بتایا کہ ہر وقت بس موبائل پر لگا رہتا تھا۔
یہ بات سن کر ایس ایچ او عدیل ظفر نے طالب کے زیر استعمال سم کا ڈیٹا CDR حاصل کیا۔ اور جدید سائنس طریقہ سے تحقیق شروع کر دی۔ طالب علم کے سم ڈیٹا پر محنت کرنے سے ایک ماہ پہلے ایک لڑکی سے طالب علم کے رابطہ کا کھوج لگا۔

یہ ہی وہ کلو ثابت ہوا جو طالب علم کی کاٹی ہوئی لاش تک لے گیا۔ اس لڑکی کے موبائل کی آنرشپ حاصل کی گئی تو پتہ چلا لڑکی تو کھاریاں کی ہے۔ لیکن مزید جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پتہ چلا کہ وہ لڑکی محلہ شفقت آباد میں ہی موجود ہے۔ ایس ایچ او عدیل ظفر کھوج لگاتا ہوا لڑکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ لڑکی مدرسہ ہی کے استاد مولوی شہزاد مزمل کی سالی نکلی۔ ایس ایچ او نے لڑکی سے پوچھ گچھ کی تو اس نے طالب علم کے ساتھ تعلق کا اقرار کیا۔ لیکن 16 سالہ ماں کا لاڈلا بیٹا جو گھر چھوڑ کر دین کی تعلیم حاصل کرنے آیا تھا ابھی تک نہیں ملا تھا۔
ایس ایچ او عدیل نے دوبارہ مولوی شہزاد مزمل کو تفتیش کے لیے بلایا تو اس بار مولوی کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔ جس پر ایس ایچ او کو شک ہوا۔
ایس ایچ او عدیل نے مولوی شہزاد مزمل کے تاثرات بدلنے کے متعلق ڈی پی او منڈی بہاؤالدین سید علی رضا کو آگاہ کیا۔ لیکن ڈی پی اوسید علی رضا نے مزید تحقیقات کر کے کچھ بھی کنفرم نہ ہونے تک گرفتاری سے روک دیا۔ ایس ایچ او دوبارہ اپنی ٹیم کے ہمراہ مدرسہ پہنچااور مدرسہ آنے جانے والی گلیوں میں لگے کیمرے ڈھونڈنے لگا۔

تمام چھان بین کے بعد پتہ چلا کہ تمام گلیوں میں کیمرے نصب ہیں لیکن 2 گلیوں میں کیمرے نہیں ہیں۔ان 2 گلیوں میں ایک گلی میں مولوی کا بھی گھر ہے۔کیمروں کی ریکارڈنگ پر محنت کرنے سے ایک سراغ ملا کہ طالب علم محمد حفیظ حسن غائب ہونے والی شام ایک گلی میں داخل ہوا لیکن اس گلی سے واپس نہیں نکلا۔ ایس ایچ او نے دیکھا کہ اس گلی میں صرف 2 گھر ہیں۔

پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک گھر مولوی شہزاد مزمل کا بھی ہے۔ جس پر فوری ایس ایچ او تھانہ سٹی عدیل ظفر بوسال نے ڈی پی او منڈی بہاؤالدین سید علی رضا کو اطلاع دی تو انہوں نے مولوی شہزاد مزمل کو گرفتار کر کے تفتیش کرنے کا حکم دیا۔ مولوی جو طالب علم کا دینی تعلیم کا مدرسہ میں استاد بھی تھا کو جب تھانے لایا گیا تو پہلے عدیل ظفر نے بہت پیار سے گفتگو کی لیکن وہ کوئی بات بھی ماننے سے انکاری ہو گیا۔ عدیل ظفر نے مولوی کو حوالات کی سیر کروانے کا حکم دیا،تو ٹھیک 5 منٹ بعد مولوی شہزاد مزمل فر فر واردات کے متعلق بولنے لگا۔ مولوی نے بتایا کہ طالب علم میرا قابل بھروسہ تھا ،اس لیے میرے گھر سبزی وغیرہ کے کام کاج کرتا تھا۔لیکن اس نے میری سالی سے ناجائز تعلقات بنا لیے تھے۔ جس کا مجھے دکھ تھا۔ میں نے اسے گھر بلا کر پیار پاس بٹھا کر آنکھیں بند کرنے کا کہا اور تیز دھار خنجر نکال کر وار کر کے ذبح کر دیا۔ طالب علم کی گردن دھڑ سے الگ کر دی۔

ڈی پی او سید علی رضا نے بتایا کہ ملزم شہزاد مزمل نے پہلے ایک ہی بوری میں لاش کو ڈالنے کی کوشش کی لیکن پھر کپڑے اور تولیہ میں لپیٹ کر سر کو شاپر میں ڈال لیا اور دھڑ کو بوری میں ڈال لیا۔ سر والے شاپر کو لے جا کر محلہ شفقت آباد ریلوے لائن کے ساتھ پھینک آیا اور دھڑ والی بوری کھٹیالہ سیداں کے ساتھ گندے نالے میں پھینک آیا تھا۔ پولیس منڈی بہاؤالدین نے لاش تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے بعد والدین کے حوالے کر دی ہے۔

اس طرح چند دن بعد ہی ضلعی پولیس آفیسر سید علی رضا اور عدیل ظفر بوسال ایس ایچ او سٹی نے ملزم تک رسائی حاصل کر کے اندھے قتل کا سراغ لگا کر ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم مولوی شہزاد مزمل اس وقت تھانہ سٹی پولیس کی تحویل میں ہے اور اس نے میڈیا کو اعتراف جرم کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ مجھ سے جذبات میں سب کچھ ہو گیا ،کوئی بھی فیصلہ کبھی بھی جذبات میں آ کر نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے ملزم کے چہرے پر ایک عجیب ہی شرمندگی دیکھی اور ایسے لگ رہا تھا کہ یہ مولوی شاید سزائے موت کا حکم ہونے سے پہلے ہی اپنے ضمیر کی وجہ سے مر جائے گا۔
اس ہلا کر رکھ دینے والے واقعہ نے والدین، مولوی اساتذہ اور بچوں کو ایک عجیب سی سوچ میں مبتلا کر دیا ہے