سلام ، ملالہ، ہود بھائی ملک کے مجرم اور غدار ۔۔

جی شاید آپ میں سے کچھ لوگوں  کو یہ بات مناسب نہ لگے مگر سچ یہی ہے کہ ڈاکٹر سلام اور ملالہ یوسفزئی قوم کے سب سے بڑے مجرم ہیں ۔

ڈاکٹر علی عدنان ہیوسٹن سے تعلق رکھتےہیں ۔ پیشے کے اعتبار سے سرجن ہیں اورسماجی مسائل پر لکھتے بھی ہیں ۔ قارئین دی سپر لیڈ ڈاٹ کام پر ان کی تحاریر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

ویسے تو یہ دونوں قومی مجرم جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں یعنی ڈاکٹر سلام  کا محور سائنس تھا اور ملالہ کا سماجی خدمت اور انسانیت۔۔ مگر دونوں ہی گمراہ کن ہیں ۔میں آپ کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کیسے پروفیسر عبد السلام نے اس قوم کو سائنس سے روشناس کرنے کی گستاخی کی جبکہ دوسری جانب محض سولہ سالہ بچی قوم کو تعلیم اور امن کا بھاشن دینے آگئی جبکہ ہمارا مقصد ہی الجہاد اور مار کٹائی تھی ۔آخرمیں بات ہوگی پروفیسر ہود بھائی کی بھی ۔

 سب سے پہلے بات کرتے ہیں جھنگ سے تعلق رکھنے والے ان پروفیسر صاحب کی ۔ مجھے ان کے مذہبی عقائد سے تو کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ میں  یو ٹیوب پر دیکھ رہا تھا جب انہوں نے نوبل انعام حاصل کیا تو قرآنی آیات پڑھ رہے تھے ۔ اب ان کا فرقہ کونسا ہے میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے سائنسی عقائد کا پوسٹمارٹم کروں گا اور اپنی سادہ لوح قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ سائنس سراسر کفر ہے اور روایتی جن پریوں کی کہانی ہی سب سے بہتر ہیں ۔

 میرا سادہ سا سوال یہ ہے  کہ ہمیں کیا تکلیف ہے کہ ہم فزکس کو سمجھنے کی کوشش کریں ؟ اوریا مقبول جان سے زیادہ سائنسی معاملات کو کون بہتر جانتا ہوگا ۔ میرے لئے ہر فرقہ کے عالم حضرات قابل قبول ہیں۔ جیسا کہ مولانا طارق جمیل صاحب کو ہی دیکھ لیں ۔ بھاڑ میں گئی کوائنٹم فزکس، کھوہ میں جا کر گرے خلائی سائنس ۔۔ جب میں نے اور میرے جیسے کروڑوں پاکستانیوں نے خلا میں جانا ہی نہیں تو ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے ہم پروفیسر سلام کی پروفیسری کے رعب میں آئیں ؟ اسی طرح ہمیں کیا مسئلہ ہے کہ کائنات کیسے بنی ہے ؟ ہمیں آخر اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سادہ سی بات ہے ، نماز روزہ رکھیں اور مولانا طارق جمیل کے بیانات کی روشنی میں حوروں کا سوچیں  ۔

سمجھ نہیں آرہا کہ پروفیسر سلام کی سائنس  وطن عزیز میں  لاگو کرنے کا کیا جواز ہے بھلا ؟ایک اور اہم بات میں یہاں کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ یہ دنیا اللہ نے بنائی ہے ۔ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کیسے بنائی ۔۔ بس ہمیں بنی بنائی مل گئی اور کیا چاہیے ؟گاڈ پارٹیکل یا ہگس بوسن تھیوری کیا ہے پروفیسر سلام اور ان جیسے سائنسدان ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش نہ کریں ۔ میری نظر میں کھیرا کاٹنے کے شرعی طریقے ، مسواک ٹھیک طرح سے پکڑنے کے طریقے ، غسل کے  طریقے وغیرہ  زیادہ اہم ہیں ۔ ایم اے پاس ہونا بڑی بات ہوتی ہے مگر یہ اسلامیات ، معاشرتی علوم یا کشمیریات میں  ٹھیک ہے۔  میں تعلیم کے خلاف نہیں ۔ایم بی اے کر لیں ، ایم بی بی ایس کر لیں ۔ ڈاکٹر انجینئر بن جائیں ، استاد بن جائیں مگر صرف  اوریا ، قادری ، اسرار، خادم  جیسے  افراد کی طرح  کریں جو دین کی خدمت میں سب سے آگے ہیں ۔

پس میرے مطابق ہمیں سائنس کی ضرورت نہیں ۔ ہاں اگر اہل مغرب سائنسی ایجادات کر تے ہیں تو ہم پیسے دے کر خریدتے ہیں ۔ یہ ہمارا حق ہے  ۔ نہ ہم نے راکٹ خلا میں بھیجنا ہے ۔ نہ ہمیں کورونا ویکسین ایجاد کرنے کا کوئی شوق ہے ۔ایک چیز جب مفت میں مل رہی ہے تو نئی بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟پھر کہتا ہوں ۔۔  نہ ہی ہمیں خلائی مخلوق پر تحقیق کرنا ہے ۔ہمارے اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے تو بھلا ہم نئی مخلوق سے کیوں دوستی بڑھائیں ؟ ہمیں وزیراعظم  پاکستان کے یکساں تعلیمی نظام پر فوکس کرنا ہے وہ جو، جیسا لکھ دیں گے ہم پڑھ لیں گے ۔ہمیں مدرسہ سسٹم کی تعلیم پر فخر ہے ، ہماری سائنس یہی ہے کہ ہم سر ہلا ہلا کر سب کچھ یاد کر لیتے ہیں ۔ ہمیں ناسا طرز کی کوئی کمپنی  نہیں چاہیے ۔

ہمارے پاس اپنے بہت راکٹ ہیں ، جیسے راجو راکٹ ، فیکا راکٹ ۔ پس میرے خیال سے میں نے پروفیسر عبد السلام کے حمایتیوں کو واضح پیغام دے دیا اور زبردست دلائل سے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہماری نظر میں سائنسی ریسرچ سنٹر کے قیام کے بجائے داتا دربار کی توسیع زیادہ اہم ہے ۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ ہر لنگر خانے میں وافر کھانا ہو اور کوئی ملنگ اور  نشئی بھوکا نہ سوئے ۔ خیر اب بات کرتے ہیں ملالہ یوسفزئی کے خطرناک ایجنڈے کی ۔

ملالہ جب چھوٹی تھی تو گمراہ کن ادارے بی بی سی کے لئے کالم لکھتی تھی ۔ شاید اس کا نام تھا گل مکئی ۔ یہ نام پھر بھی بہتر تھا مگر ملالہ یوسفزئی  کا نام سن کر مجھے آگ لگ جاتی ہے ۔ ہوا کچھ یوں کہ طالبان برادری شرعی نظام لانا چاہتی تھی جس کی رو سے لڑکیوں کی تعلیم ممنوع ہے ۔ ان کے مطابق تعلیم ہر مرد اور عورت پر فرض ہے مگر عورت کی تعلیم صرف نرسری ، پریپ تک ہوتی ہے ۔

بہرحال ملالہ نے طالبان کو چیلنج کیا سکول گئی اور پھر اسے طالبان نے سبق سکھا دیا۔ کنپٹی پر گولی ٹھوکی اور اسے سمجھا دیا کہ اے لڑکی عقل کرو ۔۔ تعلیم سے دور رہو ۔ تعلیم وہی ہے جو مدرسے کی ہوتی ہے ۔ ملالہ بچ گئی اور پھر مغربی دنیا کی اس پر نظر پڑ گئی ۔ ظاہر سی بات ہے یہاں علاج کا خرچہ کون اٹھاتا ؟ سوات یا مینگورہ کے ہسپتال میں بیڈ نہ ملنے  پر مر جاتی یا پشاور ریفر کردیا جاتا جہاں راستے میں ٹریفک میں پھنس کر چل  بستی ۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ سرجن چھٹی پر ہوتا ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ملالہ کا باپ پرچی بنوانے لائن میں کھڑا ہوتا اور ملالہ مر جاتی ۔  ایسے میں گوروں نے  خود علاج معالجہ کرایا اوراٹھا کر برمنگھم نامی فضول سے علاقے میں لے گئے ۔

ظاہر سی بات ہے واپس آتی تو پھر ماری جاتی اس لئے اس بزدل نے موت سے گھبرا کر لندن رہنا مناسب سمجھا۔ چاچا گورڈن براؤن نے تعلیمی خرچہ اٹھا لیا اور یوں اس لڑکی نے دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کا بھاشن دینا شروع کر دیا۔ اس ظالم نے ہمارے تعلیمی نظام کو چیلنج کیا ۔ ہماری نظر  میں عورت کی تعلیم کی ضرورت بہت کم ہے کیونکہ عورت کا کام ہی گھر سنبھالنا ہوتا ہے مگر ملالہ نے جارحیت کی تمام حدیں پار کردیں ۔ یہ لڑکی کافروں کی زبان انگریزی بھی فر فر بولنے لگی ۔ تعلیم اور شعور کی بات کرنے لگی ، سلجھے ہوئے طالبان کے خلاف بھی بولنے لگی جبکہ ہماری حکومت طالبان کے سلجھے ہوئے اسٹائل کی حمایتی ہے ۔ہماری نظرمیں مسجد کا خطیب معتبر ہے ۔ وہ جو کہہ دے پتھر پر لکیر ہے ۔ یہ کون ہوتی ہے ہمیں درس دینے والی ؟

 یوں ہمیں کوئی سمجھائے کہ ملالہ ہمیں کیسے اچھی لگے ؟یہ انگریزوں اور یہودیوں کی آلہ کار بن گئی ۔ لمبے لمبے لیکچر دینے لگی ۔  ملالہ فنڈ بنا کر پیسے بانٹنے لگی جبکہ پہلا حق ہمارا تھا۔ ٹھیک ہے طالبان کے خلاف بول لیتی مگر مذاکرات کی بھی بات کرلیتی ۔ عمران خان ،نواز شریف، جنرل مشرف ، زرداری صاحب کے مشن کا ساتھ دیتی ۔

پی ٹی آئی میں ہی شامل ہو جاتی بھلا۔ ہم اسے احساس پروگرام کی چیف کوارڈینیٹر لگا دیتے ۔ بس ہمارے بڑوں کی تعریفیں کرتی رہتی اور زیادہ آواز نہ اٹھاتی ۔ہو سکتا ہے اس سے بھی آگے بات بڑھ جاتی  ہم اسے الیکشن لڑوا دیتے ۔ مگر اسے روایتی پاکستان کو ہی فالو کرنا چاہیے تھا۔۔ اور  پھر اس نے پاکستانیت نہیں چھوڑی ۔۔ یہ بھی بڑا جرم تھا۔۔ یہی مسئلہ پروفیسر سلام کا تھا۔ہم جب ان لوگوں کو مانتے ہی نہیں تو پھر بھی یہ کیوں اس ملک کی جان نہیں چھوڑتے ؟

معاشرتی علوم کی کتاب میں ملالہ کی تصویر ہٹا کر اب ہم وہاں رابی پیرزادہ کی تصویر چھاپیں گے۔

  آئیے اب بات کرتے ہیں پروفیسر پرویز ہود بھائی کی ۔ اوپر میں کافی تفصیلات سے دو ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو بے نقاب کر چکا ہوں ۔ ان صاحب کا ایجنڈا بھی ملتا جلتا ہی ہے ۔ زیادہ نہیں لکھوں گا کیونکہ کالم لمبا ہو گیا ہے ڈر ہے ایڈیٹر چھری نہ پھیر  دے ۔ بہرحال پروفیسر ہود بھائی بھی امریکا کی سب سے معتبر یونیورسٹی سے سائنسی پی ایچ ڈی کر کے آئے ہیں اور ہمیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ۔ ان صاحب کا ایجنڈا بھی سائنسی علوم کا فروغ ہے ۔

انہوں نے آج تک بکرا کاٹنے کا طریقہ نہیں سمجھایا۔ کبھی انہوں نے شلوار ٹخنوں تک اٹھانے ، الٹے پاؤں والی چڑیل کی حقیقت، تعویز اور کالے علم کی حقیقت ، بچوں  کو مٹی میں آدھا دبانے ، غزوہ ہند، اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ، امریکی سازشوں ، قبر کے اندر سے آوازوں ، چلہ کشی ، سانڈھے کے تیل کے فوائد، شیر کی چربی کے ٹانک کی سائنسی اہمیت ، حوروں کی اقسام، بچوں کے کان میں سوراخ ، دھمال کے فوائد، مزار پر چرس کے وجود، کوئلوں پر چل کر ماتم ، لنگر میں زردے کی دیگ  کے فضائل ، منت کی شرائط ، مردے کے چالیس قدم چل کر آنے ،میت کے مسکرانے ، مولوی کے نکاح پڑھانے کی فیس ، استاد کے گھر لازمی بریانی بھجوانے  کی برکات جیسے حساس ترین موضوعات پر بات نہیں کی ۔

ایسے میں ہم انہیں کیسے فالو کرلیں ؟ان کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ پاکستان  ان کی سائنس کو سمجھنا نہیں چاہتا مگر یہ ستر سال کے ہو گئے ہیں، روز باتیں سنتے ہیں مگر  پاکستانیت چھوڑنے کو تیار نہیں ۔