ایک خط ایک المیہ

زکریا یو نیورسٹی ملتان سے کسی طالبعلم کا ایک گمنام خط آیا۔ میں پڑھ کر حیران نہیں ہوئی کہ ایسے رویئے ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن چکے ہیں۔ اس خط کومیں اس لئے اپنے کالم میں شامل کر رہی ہوں کہ یہاں اس انسان کے لئے انصاف مانگا جا رہا ہے جو اس دنیا سے جا چکا ہے  اور خط لکھنے والے کا یہ کر ب  کہ یو نیورسٹیز کے ماحول کو سطحی سوچوں سے آلودہ کر نے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود اساتذہ کرام ہی ہیں،قابل ِ غور ہے۔وہ نوجوان لکھتا ہے۔۔۔۔

مادام روبینہ!

میں آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں اور اسی وجہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ آپ  اس خط میں موجود دکھ کو سمجھیں گی اور اس میں لکھے لفظوں کی سچائی کو محسوس کر کے اسے اپنے کالم کا حصہ ضرور بنائیں گی۔یہ مسئلہ صرف میرا  یعنی ایک سٹوڈنٹ کا نہیں یا کسی ایک استاد کا نہیں یہ مسئلہ 

پو ری  نوجوان نسل کا ہے اور ہر اس انسان کا ہے جو اپنی محنت سے آگے آتا ہے، جس کے باپ دادا کے پاس دولت نہیں، نام نہیں، شہرت نہیں۔ اور اس انسان کو زمانہ کیسے روندنے کی کوشش کرتا ہے۔۔ یہ المیہ ایسے تمام انسانوں کا ہے جو سچ کے لئے کھڑے ہو تے ہیں اور جو سٹیٹس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا دل غم سے بھرا ہوا ہے۔ ہم نے 21فروری کو ایک ایسے ہی انسان کو، اپنے ہر دلعزیز استاد کو کھو دیا ہے۔ 

قاضی عبد الرحمن عابد صاحب 1988ء میں ایم اے کر  کے شعبہ اردو بہاء االدین زکریا یونیو ورسٹی ملتان  میں آئے تھے۔ وہ رحیم یار خا ن کی تحصیل خا ن پور کے ایک گاؤں سے تھے اور ان کا تعلق بہت ہی غریب گھرا نے سے تھا۔ وہ  اپنی ہمت  اور محنت سے اپنی تعلیم جاری رکھتے رہے اور لیکچرار اور پھر پروفیسر ہوئے۔ وہ جدید تنقید کا ایک معتبر حوالہ تھے۔ ا نہوں  نے ہمیشہ علمی گفتگو کی۔ وہ ہر طالب علم سے محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے ا نہوں نے کبھی کسی طالب علم کی دل آزاری  نہیں کی۔ان کی اچانک موت کی خبر نے ہم سب کو  نڈھال کر کے رکھ دیا۔مگر میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی موت یوں ہی نہیں ہو ئی ہے،  اس کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔۔ حیرت کا مقام تو یہ ہے کہ انہیں اس مقام تک پہنچانے والے آج ا ن کے خیر خواہ اور ہمدربنے ہوئے ہیں۔

 وہ ہماری یو نیورسٹی کے صدرِ شعبہ اردو بھی رہے اس دورا ن انہوں  نے بہت سی علمی و ادبی تقاریب کا ا نعقاد کیا۔ان  کے کولیگز  نے بہت زیادتیاں کیں مگران کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آتا تھا۔ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر ا نوار احمد صاحب قاضی صاحب کے استاد بھی رہ چکے تھے  مگر ان کے آپس میں تعلقات  نا خوشگوار تھے۔ اس کی وجہ ڈاکٹر خاور نوازش صاحب کو سمجھا جاتا ہے جنہیں  یو نیورسٹی میں سفارش پر راتوں رات بھرتی کیا گیا تھا۔یہاں سے قاضی عابد صاحب، انوار احمد صاحب اور روبینہ ترین  صاحبہ کے اختلافات کی ابتداء ہوئی۔اس کے بعد یہ لوگ ایک دوسرے کو اپنادشمن گردا  ننے لگے۔ حالانکہ ڈاکٹر خاور نوازش صاحب، قاضی صاحب کے شاگرد تھے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے استاد کے ساتھ اپنی مخالفت کی انتہا کر دی۔  

 قاضی صاحب تین سال چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے۔ اس دورا ن ا ن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، طلباء طالبات کو ان  کے خلاف بھڑکایا جاتا تھا، ان  پہ جھوٹے الزامات لگائے جاتے تھے یہاں تک کہ اخبارات میں ا ن کے متعلق جھوٹی خبریں شائع کروائی گئیں۔ تین سال کی صدارت پوری کر نے کے بعد ا نہیں دوبارہ چیئرمین  بننے کے لیے آگے ہی  نہیں آ نے دیا گیا اور اعلیٰ حکام کے ذریعے  بالکل ناتجربہ کار استاد کو  صدرِ شعبہ بنا دیا گیا جس کے بعد قاضی عابد کو ایک عام سا استاد بنا دیا گیا۔ انہیں ایم فل پی ایچ ڈی کے بجائے بی ایس کے ابتدائی سمسٹر کی کلاسز دی گئیں اور کچھ کلاسز وہ دی گئیں جن میں اختیاری مضامین  ہوتے ہیں گویا ا ن کی قدر و منز لت گھٹا دی گئی۔

 اس کے بعد وہ سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹرمنتحب ہوئے تو وہاں بھی ا نہیں چین  سے نہیں رہنے دیا گیا۔مخالفین نے ان کا جینا دشوار کر دیا۔ انہیں بڑے عہدے دارا ن کے ذریعے فو ن کالز کر کے پریشا ن کیا گیا اور نہایت تلخ جملے کہے گئے۔ آخر کار تنگ آ کرانہوں  نے فوت ہو نے سے چند روز قبل سرائیکی ایریا کی سیٹ چھوڑ دی۔ایک خاص انسان کو بالکل عام سا انسان بنا دیا گیا ۔جس کے ا ندر دنیا جہاں کا علم تھا اسے ایک گمنام انسان بنا دیا گیا۔ان کے مخالفین کلاسز میں آکر انہیں طلبہ کے سامنے  ایسی ایسی نازیبا گالیاں دیتے جو سننے کے لائق نہیں ہو تی تھیں۔ اسی طرح جو طالبعلم قاضی صاحب کا قریبی ہو تا اس کا جینا دشوار کر دیا جاتا تھا ۔ان سب وجوہات کی بنا پر قاضی صاحب کی صحت خراب رہنے لگی۔اب وہ کبھی کبھار اپنے بہت قریبی دوستوں سے بہت کم اور ڈھکے چھپے الفاظ میں شکوہ کرنے لگے تھے۔ ا نہیں اپنے شعبے اور طلباء سے دلی لگاؤ تھا۔ ا نہوں نے اپنے خطے کے لوگوں کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی لیکن  بدلے میں انہیں ایسی گھٹی ہو ئی مو ت ملی۔ 

  بہاء الدین  زکریا یونیورسٹی ملتان کا شعبہ اردو ایک قتل گاہ بن  چکا ہے جہاں اساتذہ اور طلباء کو ہر طرح سے رسوا کیا جاتا ہے۔ نہ استاد اپنے  ساتھیوں کی مخالفت سے اورنہ طلباء اپنے اساتذہ کی مخالفت سے محفوظ ہیں۔ اگر کوئی طالب علم حق کی بات کرتا ہے اس کو ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس شعبے میں کسی کے ساتھ کوئی بہتر سلوک نہیں ہوتا ہے ہاں  بس ایک خاص گروہ کے ساتھ اچھے  تعلقات کی بنیاد پر انسان عزت کے دن گزار سکتا ہے۔

 شعبہ اردو اجڑ چکا ہے اس کا کوئی پرسا ن ِ حال نہیں ہے۔مادام! اپ کے توسط سے میری تمام اہل علم سے گزارش ہے کہ خدارا  اختلافات کو ختم کریں۔گریڈز کے بڑھنے سے آپ  نیچے کیوں گر جاتے ہیں۔ترقی پا نے کے لیے اپنے ہی ساتھیوں کی پرا نی دوستی کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں۔ایک دوسرے کی جان لینے پہ تل جاتے ہیں۔ خدارا بس کریں ہم اب کسی اور استاد کو کھو نے کی ہمت نہیں  رکھتے۔

 ہماری یونیورسٹی کاااندرونی ماحول اپنی کثافت کے عروج پر ہے۔ایسے ماحول میں کسی بھلے آدمی کا بچ رہنا یابچ نکلنا بہت مشکل ہے۔

 پروفیسر قاضی عبدالرحمن عابد صاحب جیسی بے وقت  اور ناگہا نی موت کا کوئی نہ کوئی قاتل تو ضرور ہوتا ہے۔پر ایسے قتل کے کیس قدرت اپنی ہی عدالت میں چلاتی ہے اور وہ بہت بڑا منصف ہے۔ 

دل ہی تو ہے،  نہ سنگ  و خشت، درد سے بھر  نہ آئے کیوں! روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں!

  ستا نے والے کہاں باز آتے ہیں۔۔ قاضی صاحب تو دلیرآدمی تھے،پر ایک بات سچ کہوں، کئی بار ا نہوں نے  اپنی تلوار کی زد میں آئے دشمن چھوڑ دئیے،  وار روک لیا۔کئی بار تاک کر تیر مار ے والے نے تیر چلا دیا اور ا نہوں  نے ایک طرف ہو کر وار خالی جانے دیا اور بچ کر مسکرا دئیے اور ٹھیٹ سرائیکی میں بس اس کے  ناقص  نشا نے کا مذاق اڑادیا۔کئی بار دوست حیرا ن ہوتے کہ کسی انسان کا اتنا بڑا ظرف کیسے ہوسکتا۔ جنگ میں صرف دو راستے ہوتے ہیں، یا مار دو یا مر جاؤ، لیکن  انہوں نے  ہمیشہ تیسرا رستہ اختیار کیا یعنی چلو چھڈو۔۔۔جانے دو۔ والا اختیار کیا۔ یہاں صرف کرسی کی قیمت اور قدر ہے ا نسان کی نہیں۔میں ایک غریب گھرانے سے ہوں اور ان کی ایسی موت دیکھ کر سوچتا ہوں میں محنت اور سچائی سے آگے بڑھا تو کیا میرا بھی ایسا ہی انجام ہو گا؟ 

میڈم وہ، ایک غریب گھرا نے سے، ایک پسماند ہ علاقے سے یہاں آئے تھے، اپنے بل بوتے پر اپنی  شناخت بنائی تھی اور ہم جیسے کتنے ہی غریب لڑکوں کے لئے رول ماڈل تھے۔محنت کی زندگی کے بعد اب تو ان کے پھل کھانے کے دن آئے تھے، اور ان کو اجل کا لقمہ بننا پڑا۔ میں منت کرتاہوں کہ خدا کے واسطے کم از کم استاد  تو ایسی گھناؤنی سازشیں اور اختلافات نہ کریں کہ ہم جیسے طالبعلموں کا دم ہی گھٹنا شروع ہو جائے۔ 

سچائی کا ساتھ دینے والے تمام انسانوں کا پرستار۔ آپ کا خیر خواہ۔۔۔۔۔

اس خط کو پڑھ کر میرے لئے لکھنے کو کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس سوال کے کیا ہم اپنے تعلیمی اداروں کو سازشوں سے پاک کر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے تعلیمی اداروں میں ایسا ماحول دے سکتے ہیں جہاں کے فارغ التحصیل بچے اس دنیا میں ایک مثبت سوچ اور مثبت رویوں کے ساتھ آگے بڑھ سکیں۔ ایسے گندگی کے ماحول میں آپ بچوں کی کیا تربیت کریں گے؟ 

قاضی صاحب اپنے شاگردوں میں اچھی لیگیسی چھوڑ بھی گئے ہوں توان گالیوں کا کیا کیا جائے جو ان کو ان کے مخالف اساتذہ دیتے رہے تھے۔ ان حالات کی وجہ سے کوئی ان جیسا بننا چاہے گا؟۔۔