ماسی نیامتو کی کہانی

فاطمہ عمران افسانہ نویس ہیں۔تفریحی،طنزیہ اور سوشل موضوعات پرلکھتی ہیں ۔ان کے افسانے مختلف اخبارات اور جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماسی نیامتوماسی نیامتو گاؤں کی وہ ہستی تھیں جو صلح صفائی اور امن و چین کی سخت مخالف تھیں۔۔ جہاں کہیں لڑائی جھگڑا کرنا ہو ایک پیالی چائے کے بدلے ماسی نیامتو کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ گاؤں کے لوگ جس انسان کے پیچھے پڑ جاتے پھر باقاعدہ ماسی نیامتو کو اسکی سپاری دی جاتی۔چند ایک لوگوں کے سوا ماسی نیامتو تقریبا سب سے دشمنی مول لے چکی تھیں ۔ان کا خیال تھا کہ انسان کو دنیا دار سے زیادہ دشمن دار ہونا چاہیے کیونکہ اس سے شخصیت کا رعب قائم رہتا ہے۔ماسی نیامتو کو جنگ میں ملکہ حاصل تھا۔بس لڑنے کو ایک بہانہ اور پھر ماسی نیامتو کو کمان سے نکلے تیر کی طرح واپس لانا ناممکن ہو جاتا تھا ۔اس قدر چستی سے گالیاں میزائل کی طرح داغے جاتی تھیں کہ سامنے والا تابڑ توڑ حملے نہ سہہ سکتا۔۔چونکہ ماسی نیامتو کی گالیاں گاؤں کے سینسر بورڈ سے اونچے معیار کی تھیں اس لئے شریف لوگ ماسی نیامتو کے گھر قدم رکھتے ہی

انکے کچھ کہنے سے پہلے ہی معافی مانگنا شروع کر دیتے تھے۔۔ گاؤں کی سیاست میں ماسی نیامتو کا کردار الطاف حسین کا تھا سیدھا دشمن کی عزت بوری میں باندھ کر نہر میں پھینک آتی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ ماسی نیامتو “شریکے” میں بہت مقبول تھیں کیونکہ بنتی بات بگاڑنا انکے سیدھے ہاتھ کا ہی کھیل تھا۔ بائیں ہاتھ کو تو وہ حقے سے ہی ہٹانے کی تکلیف نہیں کرتی تھیں۔ ماسی نیامتو اکثر فخریہ انداز میں کہتی پائی جاتیں کہ ان کی لڑاکا مہارت کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمان سے ستارہ توڑ کربھی لا سکتی ہیں اور واپس لگا کر بھی آ سکتی ہیں۔ یہ محاورہ گاؤں میں کسی ایسے شخص کیلیے بولا جاتا ہے جس کے پھبے کٹنی ہونے میں دور دور تک کوئی شک و شبہ نہ ہو۔

ماسی نیامتو ہمیشہ سے لڑاکا تو تھیں ہی مگر فسادات کی اس قدر سینیارٹی کا سفر انہوں نے تب طے کیا جب ایک دن گاؤں کے شریر لڑکوں نے انکی مرغی چوری کر کے اسکا پلاؤ بنا کر ماسی نیامتو کے ہی گھر بھیج دیا۔ ماسی نیامتو شام تک انتظار کرتی رہیں کہ انکی مرغی واپس آئے تو دو دانے اس کے آگے ڈال کر اپنی پسندیدہ کٹو بیگم کی بھی خوشبودار پلاؤ سے تواضع کریں ۔مگر شام تک کٹو بیگم نہ آئی تو ماسی نیامتو کو شک ہوا۔اسکے بعد پلیٹ میں پڑی ران کی بوٹی سے ماسی نیامتو نے کٹو بیگم کو شناخت کیا اور پھر سارے گاؤں نے انکا وہ بھیانک روپ دیکھا جس سے آج تک سب پناہ مانگتے ہیں۔اس دن کے بعد ماسی نیامتو نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ہم سے ماسی نیامتو کا یہ رشتہ تھا کہ روز ہی ایک پیالی چائے وہ ہماری دادی کیساتھ بھی پیتی تھیں۔ اور ہمیں آتے جاتے، ہنستے کھیلتے روک کر دادی کو شکایت لگاتیں کہ بی بی جی آپکی پوتی مجھے سلام نہیں کرتی۔ جواباً دادی کے گھورنے کے بعد میرا سلام ہوتا اور ماسی نیامتو کے سامنے کے دو دانتوں پر فخریہ مسکراہٹ ( ماسی نیامتو کے سامنے کے دو دانت انکے منہ سے کافی آگے کو نکلے ہوئے تھے جسکی وجہ سے ماسی نیامتو کے دانت پہلے ہنستے معلوم ہوتے تھے اور انکا چہرہ بعد میں). ایک دن تپتی دوپہر میں، میری بہن اور میں کھیتوں میں لگی گندم کی فصل پر لیڈی برڈ پکڑنے لگے۔ ایک سٹے سے بھاگ کر دوسرے سٹے تک مختلف رنگوں کی لیڈی برڈ پکڑتے پکڑتے ہمیں پتہ بھی نہ چلا کہ اچانک سامنے سرسراہٹ ہوئی اور ماسی نیامتو کا ہیولا نظر آیا۔ہم چار پانچ سال کی بچیوں کا دم اوپر کا اوپر اور سانس نیچے کی نیچے رہ گئی۔

ماسی نیامتو دور سے ہی دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے لڑاکا انداز میں پنجابی میں بولی کہ ہم کون ہیں؟ ہم چپ۔ ماسی نیامتو نے پھر دھمکی آمیز لہجے میں پوچھا کہ ہم کون ہیں؟میری بہن تو گندم کی ڈالیوں میں ہی چھپنے کی ناکام کوشش کرتی رہی مگر تھوڑی ہمت جمع کر کے گندم کی فصل سے چھوٹی سی منڈی نکال کر میں نے کہا “میں۔۔۔ “”میں کون؟ ” ماسی نیامتو نے پھر پوچھا .”میں راج کی پوتی”میں نے دیکھا کہ ماسی نیامتو کے چہرے پر وہی ہمیشہ والی مسکراہٹ پھر سے نمودار ہوئی۔ میں سمجھ گئی کہ ماسی نیامتو ہمیں پہچان گئی یے۔ اور جان خلاصی ہو گئی۔

اس کے بعد پھر ہم تھے اور ماسی نیامتو کی گالیاں۔ الٹا شام کو دادی کی عدالت میں ہمیں دوپہر میں باہر جانے اور ماسی نیامتو کی ریاست میں گندم کے پودے روندنے کی سزا بھی ملی۔جسے بڑھا چڑھا کر ماسی نیامتو نے کسی طوفان کے بعد آنے والی تباہی کی طرح پیش کیا تھا۔ ڈانٹ کھاتے وقت میں نے کن اکھیوں سے دیکھا۔۔تو ماسی نیامتو کے چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی۔