انتخابات اور ڈالر کی قدر

اس سال 15اگست کو افغانستان نے بقول ہمارے وزیر اعظم غلامی کی زنجیریں بالآخر توڑ دیں۔ امریکہ کے اس ملک سے ذلت آمیز انخلاء کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کی کرنسی یعنی ڈالر کی قدر بھی پنجابی محاورے والی ٹکاٹوکری ہوجاتی۔ یہ مگر ہو نہیں رہا۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مسلسل گررہی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں ہوا حالیہ اضافہ واضح عندیہ دے رہا ہے کہ روزمرہّ ضروریات کی دیگر اشیاء میں بھی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ناقابل برداشت اضافہ ہوگا۔ ہمارا میڈیا مگر اس جانب بھرپور توجہ مرکوز کرنے کو تیار نہیں۔

ٹی وی کھولیں یا اخبارات کے صفحات پر نظر ڈالیں تو گماں ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت اہم ترین مسئلہ آئندہ انتخاب کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ عمران حکومت اس ضمن میں مصر ہے کہ مذکورہ ا نتخاب میں کاغذ پر چھپے بیلٹ پر ٹھپے لگانے کے بجائے رائے دہندگان انگلی سے اپنے پسندیدہ امیدوار کی حمایت میں ووٹنگ مشین پر نصب بٹن دبائیں۔ مبینہ طورپر دھاندلی اور لوٹ مار کی عادی اپوزیشن جماعتیں مگر اس کے لئے تیار نہیں ہورہیں۔ الیکشن کمیشن بھی اس ضمن میں تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ عمران حکومت کے بلند آہنگ وزراء فرسودہ نظام کے حامیوں کی سوچ سے تلملا اٹھے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر چھائے ان کی مذمت میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن اپنے دفاع میں جوابی بیانات دینے کو مجبور ہوجاتی ہے۔

یہ کالم لکھنے سے قبل اپنی گاڑی میں پیٹرول ڈلوایا ہے۔ گھر سے نکلنے لگا تو بیگم صاحبہ نے گھریلو ضروریات کی ایک فہرست بھی تھمادی۔ میں ایسی خریداری کا عادی نہیں۔ اس کے باوجود بل دیتے ہوئے دوکاندار سے مہنگائی کا شکوہ کیا۔ اس نے جواباََ خریداری کم ہونے کی لمبی داستان سنادی۔ مارکیٹ میں بھکاریوں کی تعداد بھی معمول سے کہیں زیادہ نظر آئی۔ ان میں شامل بچیوں کو انکار کی ہمت نہیں ہوتی۔ شدید حبس نے گزشتہ تین دنوں سے پریشان کررکھا ہے۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے دو بچیوں کو پیسے دینے کے بجائے جوس کے ڈبے خرید کر دئیے۔ انہیں دیکھتے ہی دس سے زیادہ بچوں کا ہجوم میرے گرد جمع ہوگیا۔ میں دکھی دل کے ساتھ مارکیٹ سے فرار کو مجبور ہوا۔ اس کالم کے لئے جمع کئے خیالات منتشر ہوچکے ہیں۔ انہیں مرتب کرنے کی ترکیب سمجھ نہیں آرہی۔

کالم کا آغاز میں نے افغانستان میں طالبان کی فاتحانہ واپسی سے کیا اور اس کا تعلق پاکستانی روپے کی گرتی ہوئی قدر سے جوڑ دیا۔ بادی النظریہ دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہوگا۔ ٹھنڈے دل سے مگر یادکیجئے کہ 15اگست کے بعد امریکہ نے ا پنے ہاں موجود 9ارب ڈالر کے افغان ذخائر کو منجمد کررکھا ہے۔ ان ذخائر تک رسائی کے بغیر طالبان حکومت مارکیٹ میں نئے نوٹ پھینک نہیں سکتی۔ افغانی کامستقبل خطرے میں پڑچکا ہے۔

افغان کرنسی کا عالم طالبان کے گزشتہ دور میں بھی بدحال تھا۔ وہاں کے تاجر پاکستانی روپے میں لین دین کو ترجیح دیتے تھے۔ پاکستانی روپے کو وہاں کلے دار کہا جاتا ہے۔ سوروپے کے عوض ہزاروں کی تعداد میں افغانی نوٹ ملاکرتے تھے۔ نائن الیون کے بعد جب غیر ملکی افواج وہاں آئیں تو بتدریج افغانی پاکستانی روپے کے مقابلے میں مضبوط کرنسی شمار ہونا شروع ہوگیا۔ اب تاریخ خود کو دہرارہی ہے۔

15اگست 2021کے بعد سے افغان تاجروں کو ادھار پر سپلائی میسر نہیں۔ نقد ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان سے آئی اشیاء کو ہمارے روپے کے عوض خریداجاسکتا ہے۔ دیگر ممالک مگر ڈالر میں ادائیگی کا تقاضہ کررہے ہیں۔ میری دوبینکاروں اور تین تاجروں سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ وہ بضد رہے کہ پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پر 30سے پچاس لاکھ امریکی ڈالر افغانستان جارہے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ڈالر کی جو قیمت مقررکررکھی ہے اس پر عمل صرف اسی صورت ہوتا ہے اگر آپ ڈالر کھلے بازار میں بیچنے جائیں۔ ڈالر مگر اس قیمت پر خریدنے کو میسر نہیں ہوتے۔ آپ کو ڈالر میں بڑی ادائیگی کرنا ہو تو سفارشیوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ طالبان کی کابل میں فاتحانہ واپسی نے گویا ہمارے ملک میں مہنگائی کے سیلاب کو نئے راستے بھی دکھادئیے ہیں۔

پاکستان کی منڈی سے افغانستان جاتے امریکی ڈالر اگرچہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا واحد سبب نہیں۔ ہماری برآمدات اس مقدار تک تقریباََ منجمد ہیں جو 2013کے مالی سال میں نمودار ہوئی تھی۔ درآمدات ان کے مقابلے میں گزشتہ دو مہینوں میں بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔ ان کی ادائیگی امریکی ڈالر میں ہوتی ہے۔ اس تناظر میں پیٹرول کی قیمت میرے اور آپ جیسے فرد کے لئے فی الفور ناقابل برداشت ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ لازمی ہے۔ موسم سرما کی طرف بڑھتے ہوئے ہمیں اعتماد نہیں کہ ہمارے چولہوں اور گیزروں کو گیس مہنگی ہی سہی باقاعدگی سے ملتی بھی رہے گی یا نہیں۔

روزمرہّ زندگی کے ان بنیادی امور پر توجہ دینے کی بجائے عمران حکومت کے نورتن وزیروں نے میڈیا کو یہ طے کرنے میں الجھادیا ہے کہ آئندہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی کیسے بنایا جائے۔ یہ انتخاب نظر بظاہر 2023میں ہونا ہیں اور ابھی تو رواں سال ختم ہونے میں بھی تین ماہ باقی ہیں۔ اس کے بعد آنے والا پورا سال ہم کم آمدنی والوں کے ذہن میں پہاڑ کی صورت ابھررہا ہے۔ کمال امروہی کی ایک مشہور فلم کا مقبول نغمہ تھا جس میں مینا کماری درد بھری آواز میں سحر کو اسی صورت دیکھنے کی امید کا اظہار کرتی ہے اگر “آج کی رات” گزرجائے۔ اسے گزارنا مگر مشکل نظر آرہا ہے۔ غالبؔکا بیان کردہ “صبح کرنا شام کا…”والا معاملہ۔

ماہانہ اور بندھی تنخواہ کے محتاج ہر پاکستانی کی طرح میرا ان دنوں حقیقی مسئلہ آئندہ ا نتخاب کی شفافیت ہرگز نہیں ہے۔ ہم ان تک پہنچنے سے قبل اس امر کو یقینی بنانا چاہ رہے ہیں کہ ہمارا موجودہ معیار زندگی اگر بہتر نہیں ہوتا تب بھی کم از کم اسی مقام پر برقرار رہے۔ یہ مگر ممکن نظر نہیں آرہا اور میڈیا نے ہماری پریشانیوں کے مؤثر اظہار کے بجائے ہمیں فروعات میں الجھارکھا ہے۔