یارم منحوس

یارم کی وجہِ شہرت یار باشی سے زیادہ انکی ” اوباشی” بن چکی ہے۔ اس پر مستزاد کہ ہماری خوش باشی انکو دونوں آنکھوں سے نہیں بھاتی ۔ لہذا اکثر ہی ہماری ناک میں دم اور سر پر بم پھوڑے رکھتے ہیں۔
قصہ کچھ یوں ہوا کہ یارم جو اپنی نالائقی کے سبب اب تک کوئی “پروفیشن” اپنانے میں باقاعدہ ناکام تھے اور اپنی ہر ناکامی کا سبب دانستہ طور پر اپنی منحوسیت کو ٹھہراتے تھے۔اب انہوں نے اپنی بدقسمتی کے مرغ بسمل کو “ہیر ڈریسنگ” کے بحر ظلمات میں دوڑانے کا تہیہ کر لیا حالانکہ ان کا قینچی سے رشتہ بندر کا ادرک کے سواد سے تعلق جتنا ہی تھا۔۔۔

ہم نے حسب معمول سمجھایا کہ یارم ” خر” کا جہاں اور ہے “خیل” کا جہاں اور۔۔مگر یارم تھے کہ بدستور بزاخفش۔۔۔

چند ہی دن بعد انہوں نے نجانے کہاں کہاں سے مقروض ہو کر دو مرلے کا شاندار ہیر سیلون کھول لیا حالانکہ قینچی یارم کو ادھار کی صورت میں صرف محبت پر چلانی آتی ہے۔ اور اس کو مثل خنجر سینے میں گھونپنے کیلئے جو ہمارا ہی انتخاب کیا تو ہم بےساختہ چیخ اٹھے
“نہ یارم نہ ۔ ہماری زلف دراز تو صرف محبوب کے شانے پر بچھانے کیلیے ہے اسکو یوں سنگدلی سے کسی اناڑی کے ہاتھوں نظرِ تراش خراش نہ کریں گے”..
تبھی باقاعدہ ہیر ڈریسر سے بھکاری کے عہدے پر فائز ہو گئے اور منتوں پر اتر آئے۔ “دیکھو فاطمہ اگر تم نہ بیٹھو گی تو میرا ہاتھ کیسے صاف ہو گا؟ بھلا دوست ضرورت کے وقت کام نہ آئے تو کیا فائدہ ایسے طوطا چشم کا۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ میری سب سے قریبی دوست ہی میری ماڈل بھی ہو”.

گو یارم کا “ہاتھ صاف” کرنے کا معاملہ کچھ کچھ ہمارے ذہن کے پردے پر مستقبل کی جھلک دکھا رہا تھا مگر دوستی جیسے مقدس رشتے پر یارم کے بدلتے ہوئے خیالات اور جذبات نے ہمارا دل پگھلا دیا۔ویسے بھی ایک موقع تو سب کا حق ہے کیا پتہ اسی بہانے یارم کی قسمت کا جام پہیہ بھی چالو ہو جائے۔ویسے”ماڈل” بننے کا خیال بھی کافی خوش کن تھا ۔

یارم کے ہیر سیلون پر ہمارا شاندار استقبال ہواکہ بہرحال ابھی تک کے اکلوتے و لاڈلے کسٹمر جو ٹھہرے۔ دیواروں پر جابجا رنگین ڈھانچے، ہڈیاں اور کٹے پھٹے انسانوں کے پوسٹر دیکھ کر ہماری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ہماری حیرت پر انہوں نے انکشاف کیا کہ انکے سیلون سے پہلے یہ کسی عطائی ڈاکٹر کا کلینک تھا اور خرچہ بچانے کیلئے انہوں نے پرانے پوسٹرز پر ہی اکتفا کر لیا۔ ویسے بھی ڈاکٹر اور ڈریسر میں فرق ہی کیا ہے؟ دونوں قینچی چلانا بخوبی جانتے ہیں۔۔۔۔ یہ پوسٹرز انکی کاروباری ساکھ کی ضمانت بےشک نہ سہی مگر انکی دور اندیشی کا منہ بولتا ثبوت تھے کہ مستقبل قریب میں یارم کا یہی حال ہونے والا تھا۔
پھر انہوں نے آگے بڑھ کر گلے میں ہار کی طرح ایک لمبا سا چغا ہمارے گردن گزار کیا اور نہایت عزت افزائی کے ساتھ ایک کرسی پر براجمان کروایا۔
ہمارے سامنے ہی یارم نے قینچی اٹھا کر بازو اوپر نیچے کر کے تھوڑی دیر خالی قینچی چلائی۔ ہمیں یہی لگا کہ وہ خود کو مشاق “نائی” ظاہر کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے خوداعتمادی سے بولے کہ ” اصل میں پرانی قینچی ہے تو سوچا تھوڑا چلا کر فلو میں لے آؤں۔کہیں زنگ کی وجہ سے اَڑ ہی نہ جائے”.
یارم کی یہ بات سن کر ہم پر گھڑوں پانی تو پڑ ہی گیا مگر دل پر پتھر رکھ کر یارم کی “ماڈل” بننے کے علاوہ اب کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔۔
یارم نے کسی ماہر کی طرح پہلے ہمارے بالوں پر پانی چھڑک کر ہمیں بھیگی بلی کیا پھر بار بار ایک لٹ لے کر اس میں سےکنگھی گزارتے ہوئے بالوں کو آخری سرے سے پکڑ کر کچھ سوچتے اور چھوڑ دیتے۔ چند منٹ یہی “پریکٹس” رہی تو پوچھنا ہی پڑا۔۔کہ آخر رسمِ کٹائی کب شروع ہو گی۔ تب بولے “دراصل میں سوچ رہا ہوں کہ تم پر کون سا لُک اچھا لگے گا۔ تم بتاؤ کتنے کاٹنے ہیں”.
اگر دل کی بات بتانے کی اجازت ہوتی تو صاف ہی کہے دیتے کہ ارادہ تو آپکا پتہ کاٹنے کا تھا مگر پھر جی کڑا کر کہہ دیا کہ یارم یوں کیجیے “چِن” سے پہلا اسٹیپ لے لیجئے ۔۔۔

یارم نے آنکھیں بند کی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑائے ۔۔۔ اس لمحے ہمیں ان پر کسی قصائی کا گمان گزرا جو قبل از قربانی آنکھیں بند کر کے چھری پر دم کرتا ہے۔ پھر انہوں نے جو جھٹ پٹ قینچی چاروں سمت میں چلانی شروع کی کیا دیکھتے ہیں کہ ہر طرف بال میدان جنگ میں شہدا کی طرح گر رہے ہیں ۔ اس سے قبل کہ ہمیں کچھ سمجھ آتی۔۔ یارم نے کام تمام کر دیا۔اچھی طرح بال سکھا کر اپنے تئیں “سیٹنگ” کر کے ہمیں آئینے کے آگے کھڑا کیا اور فاتحانہ نظروں سے ہمارا جائزہ لیا۔ ہم نے بھی دل کڑا کر آئینے سے نگاہیں چار کیں اور چیخ روکنے کی ناکام کوشش کی۔