ترقی پسندی اور جدوجہد کا استعارہ ، سینیٹر گوردیپ سنگھ کون ہیں ؟

انٹرویو : منمیت کور
سپر لیڈ، پشاور

ترقی پسندی اور جدوجہد کا استعارہ ، سینیٹر گوردیپ سنگھ کون ہیں ؟تحریک انصاف کے ٹکٹ پر خیبر پختونخوا سے اقلیتی کی نشست پر کامیاب گوردیپ سنگھ نے سپر لیڈ نیوز سے خصوصی گفتگو کی ہے ۔


تحریک انصاف کے سینیٹر گوردیپ سنگھ سردار سورن سنگھ کے برادر نسبتی ہیں اور ضلع سوات میں رہائش پذیر ہیں۔ سپر لیڈ نیوز سے خصوصی گفتگو میں گوردیپ سنگھ نے کامیابی پر سکھ برادری اور وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ کے پی کا شکریہ ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ ناحق قتل ہونے والے سردار سورن سنگھ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے۔ اقلیتوں کےلئے جدوجہد جاری رکھیں گے ملک کی خدمت کےلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ اقلیتوں کو قانون سازی میں شامل کرنا ہوگا۔

حکومت سے مطالبہ ہے کہ حقوق کےلئے مزید اقدامات اٹھائے ۔ اقلیتوں کو ان کے مذہبی حقوق دینے کے لئے رائے عامہ ہموار کی جائے۔ سکھوں کو کرپان رکھنے جیسے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا پشاور میں سکھوں کی بڑی تعداد آباد ہے ۔ ان کو مذہبی آزادی دینے کےلئے ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل سوار سکھ افراد کو ہیلمٹ نہ پہننے پر تنگ کیا جاتا ہے جبکہ پگڑی کی وجہ سے ہیلمٹ ممکن نہیں ہوتااس لئے قانون میں سہولت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ دوران گفتگو انہوں نے میرج ایکٹ کو موثر بنانے پر بھی زور دیا۔

سردار گوردیپ سنگھ سینیٹ کا ٹکٹ وصول کرتے ہوئے ۔
فوٹو کریڈٹ:پی ٹی آئی کے پی ٹویٹر

انہوں نے کہا کہ مسیحی برادری کے فیملی قوانین میں بھی پیچیدگیاں حائل ہیں ان کو دور کرنے کےلئے خصوصی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ کمیونٹی کے فیملی اور میرج قوانین کے فقدان کی وجہ سے ہمیں مجبوری کے طور پر مسلم ایکٹ پر چلنا پڑتا ہے جو ہمیں قبول نہیں ۔

سردار گوردیپ سنگھ کون ہیں؟


سپر لیڈ نیوز کے مطابق سردار گوردیپ سنگھ 1978 کو ضلع شانگلہ کےمضافاتی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اسی علاقے سے حاصل کی۔جس کے بعد انہوں نے اپنے والد کے کاروبار کو سنبھالا۔سردار گوردیپ سنگھ نے سیاسی کیرئیرکاآغاز 2005سےکیا ۔

اس دور میں انہوں نے بلدیاتی الیکشن میں قسمت آزمائی اور اپنے علاقے سے بڑی تعداد میں ووٹ لے کر اقلیتی سیٹ پر کونسلر منتخب ہو گئے ۔گوردیپ سنگھ نے 2008 میں جمیعت علمائے اسلام جوائن کی اور تقریبا پانچ سال تک جے یو آئی کے ساتھ ہی وابستہ رہے ۔ اس دوران انہوں نے اپنے حلقے کی بہتری کےلئے آواز اٹھائی اور سماجی کاموں میں بھی پیش پیش رہے ۔

اس دوران جے یو آئی کی جانب سے انہیں ضلعی صدر بھی نامزد کیا گیا۔ تاہم 2013 میں انہوں نے رکن اسمبلی کی دوڑ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تاہم انہیں ٹکٹ نہ مل سکا ۔سیٹیں کم ہونے کے باعث وہ تحصیل ناظم کےلئے بھی امیدوار نہ بن سکے۔

واضح رہے کہ گوردیپ سنگھ 2010 میں ضلع سوات منتقل ہوگئے ۔ جہاں انہوں نے اپنا کاروبار کیا اور بچوں کو تعلیم دلوائی ۔ گوردیپ سنگھ سردار سورن سنگھ کے برادر نسبتی ہیں جنہیں دہشت گردوں نے نشانہ بنایا ۔ سردار سورن سنگھ کے قتل کےبعد گوردیپ سنگھ کو خاصی اہمیت ملی ۔

گوردیپ سنگھ کو سردار سورن سنگھ کے مشن کو آگے بڑھانے کا مینڈیٹ ملا

سکھ برادری نے انہیں سردار سورن سنگھ کا جانشین قرار دیا اور ان کے مشن کو بڑھانے کےلئے مینڈیٹ دیا۔سردار گوردیپ سنگھ نے 2018کے الیکشن کے لئے بھی کوشش کی تاہم انہیں ایک مرتبہ پھر ٹکٹ نہ ملا جبکہ ان کو خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری خاصی اہمیت دیتی تھی ۔ تحریک انصاف میں آنے کے بعد پارٹی نے انہیں قبول کیا اوریوں ان کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہو گئی ۔

انہیں سنٹرل ورکنگ کمیٹی میں نائب صدر کا عہدہ دیا گیا ۔ حالیہ سینیٹ الیکشن میں سردار گوردیپ سنگھ اقلیتی برادری کے اعتماد کے ساتھ ساتھ پارٹی کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ۔