حکومت کوبڑادھچکا،جسٹس قاضی فائز کےخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا گیا ۔ سپریم کورٹ نےصدارتی ریفرنس کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
سپر لیڈ نیوز کےمطابق سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف صدارتی ریفرنس بے بنیاد اور غیر آئینی قرار دے کر خارج کر دیا ہے ۔ عدالت نے قرار دیا کہ صدر مملکت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ۔ ریفرنس کی بنیاد ہی خلاف قوانین تھی ۔ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ سنی سنائی باتوں پر ریفرنس کیسے دائر کیا جا سکتا ہے ؟ صدارتی ریفرنس خارج کیے جانے کا دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے اس سال 19جون کو اسی ریفرنس پر مختصر فیصلہ جاری کرتےہوئے ۔۔ ایف بی آر او جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اثاثوں کی چھان بین کا حکم جاری کیا تھا۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جائیداد کی تحقیقات کےلئے صدر اور وزیراعظم سے اجازت نہیں لی گئی ۔ صرف وزیر قانون کے ہی لیٹر پر تحقیقات شروع ہو گئیں ۔
معزز جج پر منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت نہیں ہوئے
صدارتی ریفرنس میں قانونی سقم سامنے آئے ہیں ۔ یہ فرض کر لیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے بیوی بچوں کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہیں۔ صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے جج پر منی لانڈرنگ کے الزامات بھی ثابت نہیں ہو سکے ۔ صدر مملکت کو اس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور اور وزیر قانون فروغ نسیم کے تیار کئے گئے ریفرنس کا تیسری پارٹی سے جائزہ بھی لینا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا ۔
اسی طرح معزز جج اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی طریقے سے رسائی لی گئی ۔ریفرنس کو خارج کرنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔۔ اس کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ۔ یعنی اب اس نوٹس کی اہمیت ایک خالی کاغذ جتنی رہ گئی ہے ۔
اس فیصلے میں ایسٹ ریکوری یونٹ کی تشکیل کے خلاف کوئی نکتہ سامنے نہیں آیا۔ اسی طرح لکھا گیا ہے کہ یہ ریفرنس کی وجہ درخواست گزار کا ایک مذہبی جماعت کی طرف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس پر لکھا گیا فیصلہ ہے ۔ جج نے اس فیصلے میں حکمران جماعت اور ایم کیو ایم کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے تاہم بہتر ہوتا ان جماعتوں کا بھی موقف لے لیا جاتا۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر تحریک انصاف کی طرف سے نظرثانی کی پہلی اپیل کا بھی تذکرہ ہے ۔۔ جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی ۔۔تاہم رجسٹرار آفس نے اس پر اعتراض لگا کر یہ درخواست واپس کر دی تھی ۔ اگرچہ دوسری درخواست میں پی ٹی آئی کی درخواست میں کوئی سخت لفظ نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیئے
دو ججز کے اختلافی نوٹ
جسٹس فیصل عرب اور جسٹس یحیٰ آفریدی نے کچھ نکات سے اختلاف کیا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے لکھا کہ کسی مخبر کو حق نہیں کہ وہ صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل سے تحقیقات کامطالبہ کرے ۔ جسٹس فیصل عرب نے دو نکات کے علاوہ جسٹس عمر عطا کے باقی نکات سے مکمل اتفاق کیا ہے ۔ جسٹس فیصل عرب کے مطابق تحقیقات کے حوالے سے آئین یہ اختیار براہ راست صدر اور سپریم جوڈیشل کونسل کو دیتا ہے۔
اگر یہ آئینی سیف گارڈ نہ ہوتے ،،تو پھر کوئی بھی جج آزادی اور اعتماد کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام نہ دے پاتا۔جسٹس فیصل عرب کے مطابق ،جب معلومات پر کارروائی آگے بڑھائی جائے ،تو پھر جج کو صفائی دینی چائیے اور دیگر امور کی طرف سپریم جوڈیشل کونسل کو نہیں الجھانا چائیے کہ مخبر کی کریڈیبلٹی کیا ہے ۔اگر ایسا کیا جائے گا ۔۔تو پھر احتساب کا یہ سارا ڈھانچہ ہی بے معنی یا مردہ بن کر رہ جائے گا۔جسٹس فیصل عرب کے مطابق کوئی بھی جج احتساب کے عمل سے بالا نہیں ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو الزامات کا جواب دینا چائیے اور لندن میں جائیدادوں کے ذرائع بتانے چاہئیں ۔ جسٹس یحیٰ آفریدی کے مطابق درخواست گزار کے تحفظات سے بھی زیادہ ان کی طرف سے اٹھایا گیا عدلیہ کی آزادی کا معاملہ اہم ہے ۔جو کسی بھی ترقی پسند معاشرےکے لیے بھی اہم ہوتا ہے۔جسٹس آفریدی کے مطابق ججز کو قانونی مقدمات کی پیروی سے بچنا چاہیے ۔ جسٹس آفریدی نے آرٹیکل 184/3 کی وضاحت کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کو ناقابل سماعت قرار دیا۔
One Comment