علی نقوی ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ، لاہور۔ بینک خوف کی علامت ہیں ، عملہ شلوار قمیض پہنے ، بینکنگ سیکٹر کا عمران خان کے بیان پر اظہار مایوسی ، بیان کو غیر ضروری قرار دے دیا۔
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق میرا پاکستان میرا گھر نامی ہاؤسنگ سکیم کی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا بینک اب عام آدمی کو بھی قرضے دے رہے ہیں ۔ بینکوں کا ماحول بہتر ہو رہا ہے کیونکہ بینکوں نے اب اردو میں بات کرنی شروع کر دی ہے ۔ انہوں نے بینکوں کے مالکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک کام کریں ، عملے کو شلوار قمیض میں بٹھا دیں تاکہ عوام گھبرائیں نہیں ۔ اپنی بات جاری رکھتےہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بینکوں کا ماحول کچھ اس طرح کا بنا ہوتا تھا کہ عام آدمی اندر جانے سے ہی گھبراتا تھا۔ اوپر سے عملہ انگریزی بولتا تھا جس سے پریشانی بڑھ جاتی تھی ۔ اب عملہ اردو میں بات کرتا ہے جو خوشی کی بات ہے ۔
کیا ہر بینک میں انگریزی بولی جاتی ہے ؟
دی سپرلیڈ ڈاٹ کام سے گفتگو میں لاہور کے ایک بینکر عثمان مرزانے کہا کہ ایساہرگز نہیں کہ کوئی عام آدمی بینک میں داخل ہو اور عملہ اس سے انگریزی میں بات کرے ۔ بینکوں کا عملہ ہر شہری کےمزاج کے مطابق ہی گفتگو کو ترجیح دیتا ہے جیسا کہ کوئی پڑھا لکھا سرمایہ کار آئے گا تو بینک کا عملہ اسی کے مزاج کےمطابق بات کرے گا ۔اگر انگریزی میں بات کی ضرورت محسوس ہو تو عملہ انگریزی بولے گالیکن ایسا کیسے ممکن ہے کہ کوئی مزدور بینک میں آئے اور آگے سے عملہ انگریزی میں بات کرے ؟
انہوں نے کہا کہ بینکاری نظام میں بہت جدت آچکی ہے ۔ مقابلے کی فضا میں بینکوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے صارفین کو بہتر سے بہتر سہولیات دیں ۔ پاکستان بھر میں برانچز کا جال بچھا ہوا ہے کئی بینک پسماندہ علاقوں میں ہوتے ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اس خاص پسماندہ علاقے کا شخص بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے آئے تو آگے سے عملہ انگریزی کا رعب جھاڑے ؟ عثمان مرزا نے ٹیلی فونک گفتگو میں وزیراعظم کے بینکوں کے عملے سے متعلق بیان کو غیر ضروری اور غلط قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔
کیا ہر پاکستانی عقل سے پیدل اور جدید بینکوں کا نظام سمجھنے سے قاصر ہے ؟
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر لاہور سے ہی ایک نجی بینک کی خاتون منیجر نے کہا کہ بینکوں میں بہت سے مسائل درپیش ہیں ۔ وزیراعظم کا بیان کسی حد تک درست بھی ہے ۔ شہریوں کی بڑی تعداد بینکاری نظام سمجھنےسے قاصر ہے ۔ بعض اوقات ایسے صارفین بھی آتے ہیں جن کو آسان سا مسئلہ بھی سمجھ نہیں آتا ۔ یقینی طور پر عملہ بھی اکتا جاتا ہے مگر عملے کو یہ واضح ہدایات ہوتی ہیں کہ صارفین کے حقوق کا ہر صورت خیال رکھا جائے انہیں ہر ممکن طور پر سہولت دی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ البتہ وہ وزیراعظم کی شلوار قمیض پہننے کی تجویز سے اتفاق نہیں کرتیں ۔ یہ ایک محض سوچ ہے اس کا حقیقی بینکاری نظام سے کوئی تعلق نہیں ۔ ڈرس کوڈ پینٹ کوٹ اور ٹائی ہے اگر شلوار قمیض کا نظام لانا ہے تو ہر محکمےمیں شلوار قمیض پہننا لازمی قرار دے دیا جائے ۔ !