ڈاکٹر اشوک نارائن، دی سپرلیڈ ڈاٹ کام،نئی دہلی
ہندوستان میں صدارتی انتخابات کے نتیجے میں دروپدی مرمو پندرہویں صدر بن چکی ہیں ۔ چونسٹھ سالہ دروپدی مرمو کا شمار سنتھالی قبیلے سے ہے جن کو ہندوستان میں علیحدہ قبیلے کی حیثیت حاصل ہے۔ دروپدی کا صدر بننا اس لیے اہم ہے کہ سنتھالی کمیونٹی ہمیشہ سے طبقاتی تقسیم کا شکار رہی ہے۔پاکستان اور بھارت میں شخصیت پرستی کا رواج ہے لیکن سوال یہ ہے کہ شخصیت پرستی میں ڈوبے بھارتی معاشرے میں دروپدی مرمو کیا تبدیلی لا پائیں گی ؟
اس حوالے سے بھارت بھر میں بحث تاحال چھڑ ی ہوئی ہے ۔ ۔ دروپدی مرمو کے عزائم بلند ہیں ۔ وہ طبقاتی تفریق کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ان کےقبیلے کو بھی اب خاصی توجہ مل رہی ہے ۔ سنتھال لفظ سنتھالی زبان سے ماخوذ ہے جس کا مطلب پر امن آدمی ہے۔
اس قبیلے کے افراد زیادہ تر جھارکھنڈ، آسام، بہار، اڈیسہ، مغربی بنگال اور نیپال میں رہتے ہیں۔صدر دروپدی مرمو کا آبائی ضلع میور بھنج ان اضلاع میں سے ایک ہے جہاں سنتھالی لوگوں کی بہت زیادہ تعداد ہے۔
سنتھالی قبائل کون ہیں ؟
سنتھالی ہندوستان کی بڑی کمیونیٹیز میں سے ایک ہیں اور ان کا شمار ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں میں ہوتا ہے۔سنتھال قبیلے کی تاریخ کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن یہ جنگلات میں خانہ بدوشوں کی طرح رہتے تھے جہاں ان کا گزر بسر شکار اور کسی حد تک کھیتی باڑی سے ہوتا تھا۔سترہویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بڑی تعداد میں جنگلات کا صفایا کیا تو صدیوں سے آباد اس قبیلے کی معاشی و سماجی حیثیت شدید متاثر ہوئی۔ تاہم جب انگریزوں کو کوئلے کی کانوں کے لیے مزدوروں کی ضرورت پڑی تو اس کمیونٹی نے بڑی تعداد میں کانوں میں مزدوروں کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس دوران ہی انہوں نے باقاعدہ بستیوں میں رہنا شروع کیا۔
سنتھالی قبیلے کی اکثریت ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے لیکن ان کا قدیم مذہب سرنا کہلاتا ہے جس میں فطرت کے متعلقہ چیزوں کو پوجا جاتا ہے۔ عام طور پر سرنا مذہب کو ہندومت کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے ماننے والے افراد کا یہ پرانا مطالبہ ہے کہ ان کو الگ مذہب کی حیثیت دی جائے۔ہندوستان کی دوسری کمیونیٹیز کی نسبت سنتھالیوں میں شرح خواندگی زیادہ ہے۔ اس کے باوجود سنتھالی آج بھی اپنے قدیم رواجوں کے مطابق زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ان میں طلاق ممنوع نہیں، مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کو طلاق دے سکتے ہیں۔ مرد دھوتی باندھتے ہیں اور خواتین نیلی اور سبز رنگ کی ساڑھی پہنتی ہیں۔ اس کے علاؤہ ٹیٹو بنوانے کا رواج بھی عام ہے۔دریائے دامودر سنتھالیوں کی مذہبی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ جب کوئی سنتھل مرتا ہے تو اس کی راکھ اور ہڈیاں دامودر میں بہا دی جاتی ہیں۔
مجموعی طور پر یہ امن پسند لوگ ہیں اور اس قبیلے نے ہمیشہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔بھارتی صدر کے بارے میں بھارتی جاننے کی بھرپور کوشش کر رہےہیں ۔ ایسے میں بھارتی معاشرے اپنے ملک میں تبدیلی پر بھی فخر محسوس کر رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی صدر معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں رنگ جائیں گی یا عملی طور پر اپنے خطے کی ترقی کے لئے بھی کچھ کریں گی ۔