تباہی  کی المناک داستان

تحریر : محمد حمزہ تنویر

یہ ایک معمول کا دن تھا اور لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے کہ چند منٹوں بعد وہ شہر تباہ و برباد ہو گیا۔ دوسری جنگ عظیم 1939 سے شروع ہوئی لیکن ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ جاپان کی امپیریل فورسز چین و مشرقی ایشیاء کے ممالک پر بدترین مظالم کے بعد کلکتے پر حملے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ دوسری جانب 1941 میں جاپان نے پرل ہاربرپر حملہ کر کے امریکہ سے نیا محاذ کھول دیا۔ امریکہ نے 6 اگست 1945 کو جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم پھینک دیا۔ ٹھیک 3 دنوں بعد یعنی 9 اگست والے دن ناگاساکی پر ایٹمی حملہ ہو گیا۔ ان حملوں میں تقریباً اڑھائی لاکھ معصوم لوگوں کی جان چلی گئی۔ مجموعی طور پر جنگ عظیم دوم میں 7 کروڑ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 ایٹم بم کیا ہے اور کتنی تباہی لاتا ہے؟

سائنس کے مطابق کائنات مادہ اور توانائی پر مشتمل ہے (اب اینٹی میٹر، ڈارک میٹر وغیرہ کا بھی تصور ہے)۔ سائنسدان توانائی کی ایک حالت کو دوسری حالت میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے (جیسے پانی کی انرجی سے بجلی بناتے ہیں پھر بجلی کو روشنی میں بلب کے ذریعے بدل دیتے ہیں) لیکن مادے کو انرجی (توانائی) میں بدلنا ان کی حسرت رہی۔ پھر آئن سٹائن آیا اور اپنی مشہور زمانہ مساوات (توانائی برابر ہے مادے کا ماس ضرب روشنی کی رفتار کا مربع) سے مادے اور انرجی کو باہم ملانے کا کلیہ دے دیا۔ یہاں سے یہ پتا لگا کہ مادے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی بے تحاشہ انرجی میں تبدیل ہو گا۔

مادے کے سب سے چھوٹے ذرے کو ایٹم کہتے ہیں

ایٹم کے درمیان میں مرکزہ یعنی نیوکلئیس ہوتا ہے اگر اس کو توڑ دے تو ہمیں بہت سی انرجی ملتی ہے۔ اس کو ہم ہتھوڑے سے نہیں توڑتے بلکہ یہ ایک شعاع کی مدد سے ٹوٹتا ہے جو نیوٹران پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس عمل کو فشن ری ایکشن کہتے ہیں اور اس کے لیے بہترین عنصر یورینیم ہے۔ یہی ایٹم بم کی بنیاد ہے۔

جب ایٹم بم پھٹتا ہے تو اس کی آواز سے ہی بہت سوں کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور اموات ہو جاتی ہیں ۔ اس کے ایک مشروم کی طرح کا شعاعوں کا لاوا نظر آتا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جاتا ہے۔ یہ اتنی خطرناک شعاعیں ہیں جو آپ کی ہڈیاں تک گلا دیتی ہیں۔ پھر بھی کوئی بچ جائے تب آسمان سے ان پتھروں کی بارش ہو گی جو عمارات دھماکے سے اڑ گئی تھیں۔ پھر بھی کوئی بچ جائے تو باہر نہیں نکل سکتا کیونکہ کئی ماہ تک باہر شعاعوں کا اثر رہے گا۔

آج اتنے خطرناک ایٹمی ہتھیار بن چکے ہیں کہ اگر وہ کسی جگہ خدانخواستہ چل جائیں تو اگلے 500 سال تک وہاں فصل نہیں اُگے گی۔