لڑکیوں کو قتل کرنے کے بعد ان کے خون سے نہانے کی لرزہ خیز داستان کتنی سچ ہے؟

 تحریر: حسن الطاف گھمن

الزبتھ باتھوری 7 اگست 1560 کو ہنگری کے ایک امیر اور طاقتور خاندان میں پیدا ہوئی۔ باتھوری کا ایک چچا پولینڈ کا بادشاہ تھا اور ایک بھتیجا ٹرانسلوینیا کا شہزادہ تھا۔ گو درست تعداد معلوم نہیں لیکن اس پر تقریباً 600 افراد کے قتل کا الزام تھا جن میں اکثریت نوجوان خواتین کی تھی۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں باتھوری کا نام تاریخ کی سب سے زیادہ خواتین کے قاتل کے طور پر بھی درج ہے۔باتھوری کے ان اقدامات کی اصل حقیقت کبھی سامنے نہیں آ سکی لیکن اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ کے لیے جوان رکھنا چاہتی تھی اور بدقسمت مقتولین کے خون سے نہاتی تھی۔ اس کے علاؤہ بھی بہت سارے انتہائی ڈراؤنے قصے مشہور ہیں جو بعد میں مختلف ہارر کتابوں اور موویز کا موضوع بنے۔

کہا جاتا ہے کہ مشہور فکشن ناول ڈریکولا کے لکھاری Bram Stoker کو اپنے اس ناول کا خیال الزبتھ باتھوری کی وجہ سے آیا۔باتھوری ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی جس کی اس وقت کے رواج کے مطابق 11 سال کی عمر میں منگنی ایک فوجی افسر کاؤنٹ فیرنک ناداسڈی سے کی گئی اور 15 سال کی عمر میں شادی ہو گئی۔ اس کے پانچ بچے تھے جن میں دو چھوٹی عمر میں مر گئے۔ چونکہ اس کا شوہر ایک فوجی تھا اور اس وقت ہنگری اور عثمانی ترکوں مستقل جنگ کی حالت میں رہتے تھے، اس لیے فیرنک اور باتھوری نے اپنی شادی شدہ زندگی کا بیشتر حصہ الگ ہی گزارا۔ باتھوری کی عمر 44 سال تھی جب اس کا خاوند بھی مر گیا۔ اس کے بعد باتھوری نے اپنی وسیع جائیداد کا کنٹرول خود سنبھال لیا۔

باتھوری کی سفاکیت میں اضافہ اس کے بیوہ بننے کے بعد شروع ہوا

اپنے مقصد کے لیے اسے ملازمین کی مدد حاصل تھی جو جوان لڑکیوں کو کسی بہانے وہاں لاتے اور اس کے بعد ان کا نشان تک نا ملتا۔ اس وقت کے رواج کے مطابق لوگ اپنی جوان لڑکیوں کو تعلیم و تربیت کے لیے شرفاء کے گھر بھجوا دیتے تھے لیکن باتھوری کے ہاں آنے والی لڑکیوں کی بعد میں شکل تک دیکھنے کو نا ملتی۔ اس کے علاؤہ ملازم لڑکیوں کو خصوصی طور پر ‘بھرتی’ کیا جاتا جن کا انجام باتھوری کے ہاتھوں ہوتا۔آہستہ آہستہ جب باتھوری پر شکایات میں اضافہ ہوا تو دسمبر 1610 کو کاؤنٹ گیورگی تھرزو جو ہنگری کے عدالتی معاملات کی نگرانی کرتا تھا، الزامات تفتیش کے لیے بذاتِ خود باتھوری کے محل پہنچا۔

گیورگی تھرزو کا اس مقدمے میں پہلا نشانہ باتھوری کے غریب ملازم بنے جنہیں قصوروار قرار دیتے ہوئے فورا پھانسی دے دی گئی جبکہ کاوئنٹس الزبتھ باتھوری کو بے قصور ڈیکلیئر کرتے ہوئے اس کے گھر تک محدود کر دیا گیا۔ باتھوری کا انتقال اپنے محل Čachtice Palace (موجودہ سلوواکیہ) میں 1614 کو ہوا اور اسے وہیں تہ خانے میں دفنا دیا گیا۔ امیر اور شاہی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے باتھوری پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا اس لیے اس کی موت کے بعد اس کی جائیداد وارثان میں تقسیم کر دی گئی۔

الزبتھ باتھوری پر کئی موویز اور ڈاکومنٹریز بنیں۔ لیکن 2009 میں The Countess کے نام سے بنائی گئی مووی مجھے سب سے اہم لگی۔ مووی میں باتھوری کا کردار مشہور فرنچ نثراد ایکٹریس Julie Delpy نے ادا کیا ہے۔ اس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ تاریخ کے بھیانک ترین کرداروں میں سے ایک کا احاطہ کرتی یہ مووی ہارر نہیں۔