ادب کاشاہکار،الکیمسٹ ۔۔برازیلی ادب کا پہلا شاہکار جو میں نے پڑھا وہ الکیمسٹ ہی ہے ۔یہ ناول 1988 میں پائلو کوئہلونے لکھا اور صرف تیس برس میں 65 ملین کی تعداد میں بِکا ۔۔ 72 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی نسل گنجلک کہانیوں کی نسبت سادہ اسلوب اورنسبتاً مختصر کتب کو شوق سے پڑھتی ہے۔
الکیمسٹ ہماری قدیم داستانوں کے انداز میں لکھا گیا لیکن مکالمے کی طاقت نے اسے ایک آفاقی ناول بنا دیا۔ہر دوسرا جملہ ایک قولِ زریں ہے اور ان جملوں کی چاشنی آپ کو یہ ناول ایک ہی نشست میں ختم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
پائلو کوئہلو نے فاطمہ کے علاوہ کسی کردار کو پکارنے کے لیے نام کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اُس کے نزدیک خاموشی آفاقی زبان ہے اور کائنات کی ہر چیز آپ سے گفتگو کرتی ہے۔
بس ضرورت اس بات کی ہے کہ دل سے سنا جائے۔جب تقدیر آپ کو کچھ سکھانا چاہتی ہے ۔۔تو ضروری نہیں آپ ضخیم کتب کا مطالعہ کریں۔ماحول سب سے بڑا استاد ہے۔
جو خزانے آپ کے مقدر میں ہیں وہ آپ ہی کو ملیں گے۔ بس مشکلات سے مت گھبرائیں ۔۔ کبھی بھی کچھ کھو دینے کے ڈر سے کچھ پانے کی جستجو ترک نہ کریں۔
ضروری نہیں کہ جو خواب آپ نے دیکھا ہے وہ فقط خواب ہی رہے ۔یہ بھی ضروری نہیں کہ خزانہ صرف مال و دولت کی صورت ہی ملے۔اصل خزانہ وہ "آگہی” ہے جو لڑکے نے اردو والے سفر اور انگریزی والے sufferکے بعد حاصل کیا ۔ یہ محبت ہی ہے جو انسان کو ہر قسم کا سفر کرنا سکھاتی ہے ۔
وہ چرواہا جسے کبھی چند بھیڑیں یا چند روپے کھو جانے کا خوف تھا جب تجربے کی بھٹی میں کندن بنتا ہے تو سونے کی ڈلیاں چوری ہو جانے ۔۔یا فاطمہ کے کھو جانے کا خوف بھی نہیں رہتا۔
کیمیا گری کیا ہے ؟
ناول نگار کے نزدیک کیمیاگری صرف یہ نہیں کہ کون سے اجزاء کو پگھلا کے خالص سونا بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اصل کیمیاگری تو یہ ہے کہ آپ اُڑنا چاہیں تو ہوا،سورج اور خود کیمیاگر آپ کو مشورہ دینے کو موجود ہوں۔
جب آپ کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں لگ جائیں تو پوری کائنات آپ کا ساتھ دے ۔لیکن اس کے لیے آپ کو وہ آفاقی زبان سیکھنی ہے جس میں کائنات کا ہر ذرہ بات کرتا ہے۔
یہ مختصر ناول ہر نوجوان کو پڑھنا چاہیے ۔مایوسی کے اس دور میں جہاں ہر دوسرا آدمی اپنے خوابوں کے ٹوٹنے کا رونا رو رہا ہے۔۔ وہاں یہ کیمیا گر آپ کو خواب کی تعبیر کے سفر پر روانہ کردے گا۔چرواہے کی طرح پائلو کوئہلو کی تقدیر میں بھی خزانہ ( شہرت) لکھا تھا جس کا وسیلہ الکیمسٹ بنا