سپر لیڈ، واشنگٹن ڈی سی ۔ افغان طالبان اورعمران خان کےبڑھتے تعلقات،پس پردہ کیاچل رہاہے؟ طالبان کی سیاسی ٹیم کےسربراہ کا دورہ پاکستان عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنا گیا۔
سپر لیڈ نیوز کے مطابق افغان طالبان کے سیاسی نمائندے ملا برادر نے وفد کے ہمراہ پاکستان کے دورے میں اہم ملاقاتیں کی ہیں ۔ ملا برادر دوحا میں جاری امن مذاکرات میں وقفے کےد وران اچانک پاکستان روانہ ہو گئے۔ اس ہلچل پر امریکی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے بھی خصوصی نظر رکھی ۔
ملا برادر نے بظاہر شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تاہم سپر لیڈ نیوز ذرائع کے مطابق ملابرادر آرمی چیف سے بھی ملے ہیں جس میں افغان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کی گئی ۔ اس اہم ملاقات کا سرکاری سطح پر کوئی تذکرہ نہیں ۔
ملابرادر کے دورے سے پہلے وزیر اعظم آفس نے خبر جاری کی تھی کہ ملا غنی برادر عمران خان کی خصوصی دعوت پر پاکستان آرہےہیں ۔ یوں اس دورے کو سول حکومت کی افغانستان میں امن کی کوششوں سے جوڑا گیا ،تاہم ذرائع کے مطابق سول حکومت سے زیادہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس دورے کی منتظر تھی ۔
سول انتظامیہ اہم ملاقات کی تفصیلات سے غافل ؟
اس ضمن میں جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقات میں سیاسی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ دوروز قبل شاہ محمود قریشی سے ہونے والی ملاقات کو پاکستانی میڈیا نے واضح کوریج دی تھی ۔ اس ملاقات میں وزیر خارجہ نے روایتی سفارتی اندا ز اپناتے ہوئے افغانستان میں امن کی خواہش ظاہر کی ۔
ذرائع کے مطابق ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی گائیڈ لائنز پر چلتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے افغان طالبان کی طرف جھکاؤ دکھاتے ہوئے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں امن کے لئے طالبان کے علاوہ دیگر فریقین کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔اس جملے میں شاہ محمود قریشی کا اشارہ اشرف غنی کی طرف تھا۔
ذرائع کے مطابق اسی پالیسی بیان کے بعد رات گئے اشرف غنی نے وزیراعظم سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور افغان طالبان پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کی درخواست کی ۔
دوران گفتگو اشرف غنی نے اپنی پوزیشن بھی واضح کی اور کہا کہ ہم طالبان سے جنگ بندی کے معاہدے پر عمل میں ایک قدم آگے ہیں ۔ واضح رہے کہ اس گفتگو کو بھی روایتی سیاسی انداز میں نشر کرایا گیا ،جس میں دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کہہ کر اندر کی کہانی نہ بتائی گئی ۔ اس گفتگو کی تفصیلات سے فوری طور پر جی ایچ کیو کو بھی آگاہ کیا گیا۔
پاکستان کے طالبان پر بڑھتے اثر رسوخ کےبعد امریکا کی فوری مداخلت؟
پاکستان کے اس اثر رسوخ کے بعد امریکی انتظامیہ فوری حرکت میں آئی ۔ امریکی مسلح افواج کے سربراہ دوحا پہنچ گئے اور افغان طالبان کے ساتھ ملاقات کی ۔
پینٹاگون کے مطابق جنرل مارک ملی نے طالبان سے ملاقات میں تشدد میں کمی اور افغانستان کے سیاسی حل پر زور دیا۔ واضح رہے کہ افغان طالبان سے 20 سال کی جنگ کے بعد امریکی مسلح افواج کے سربراہ کی یہ پہلی ملاقات ہے ۔
جنرل مارک ملی خطے کے چار روزہ دورے پر ہیں، سکیورٹی وجوہات پر شیڈول عام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بعد میں کابل میں صدر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے کردار پر بات کی، جس کی افغان میڈیا ایجنسی نے بھی خبر نشر کی ۔
افغانستان میں امریکی فوجی اہلکاروں کی تعداد 2500پر لانے کا ٹارگٹ
امریکی میڈیا کے مطابق افغانستان میں 4 ہزار فوجی موجود ہیں جو 20 جنوری تک 2500 رہ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا افغانستان میں سیاسی قیادت کو متحرک کرتے ہوئے افغان طالبان کو بیک فٹ پر دیکھنا چاہتا ہے ۔ اس ضمن میں امریکا پاکستان کے کردار کو بھی باریک بینی سے جانچ رہا ہے ۔ امریکی میڈیا رپورٹس کےمطابق جو بائیڈن پاکستان سے متعلق امور پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ بظاہر بائیڈن کے چارج سنبھالتے ہی پاکستان کو سخت سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔
سپر لیڈ نیوز نے اس حوالے سے واشنگٹن ڈی سی میں مقیم صحافی مظہر کاظمی سے گفتگو کی ۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا افغانستان میں کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خطے میں امن چاہتی ہے، بالخصوص افغانستان میں خونریزی پاکستان کے مفاد میں نہیں ۔
یہ بھی پڑھیے
حکومت پاکستان بعض دہشت گرد گروپوں کے خلاف بھی کارروائی چاہتی ہے، کیونکہ پاکستان کے مطابق ان گروپس کو بھارت سپانسر کر رہا ہے ۔ انہی میں افغان طالبان کے بعض دھڑے بھی شامل ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان نے ماضی میں بعض گروپس کو آزادانہ کام کرنے کی بھی اجازت دی ،جس کی نشاندہی سابق افغان صدر حامد کرزئی کرتے رہے ۔
حامد کرزئی کو کیا خدشات تھے ؟
حامد کرزئی کی پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ بھی یہی گروپس تھے جس کا وہ اکثر ذکرکرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی کی پالیسی افغانستان میں سیاسی کنٹرو ل کی ہے ۔ وہ امن چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس وقت اشرف غنی نہایت حکمت عملی سے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان سے اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ حامد کرزئی کے دعوے دوبارہ حقیقت کا روپ نہیں دھاریں گے ۔
دوسری جانب ملا بردار جیسے رہنما کے تواتر سے پاکستان کےد ورے بہت سے سوالات کو جنم دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیحات میں یہ بھی شامل ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان میں بھارت کی مکمل اجارہ داری نہ ہو ۔ انہی خدشات کو دیکھتے ہوئے افغان دھڑوں کو اپنے ہاتھ میں رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یقینی طور پر پاکستان کو اپنا دفاع مقدم ہے اور یہ تمام حکمت عملی اسی تناظر میں آگے بڑھ رہی ہے ۔
مظہر کاظمی نے مزید کہا کہ یہ پاکستانی پالیسی امریکا کو کتنی بھائے گی ؟اس کا جواب بائیڈن کے وائٹ ہاؤس داخلے کے بعد ہی مل سکے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خدشات کے برعکس بائیڈن انتظامیہ پاکستان سےتعلقات میں بہتری پربھی کام کرسکتی ہے۔