ندیم چشتی، سپر لیڈ نیوز، اسلام آباد۔ پاکستان ، ترکی اور سوڈان کیسے مسئلہ فلسطین حل کرا سکتے ہیں ؟سفارتی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ۔ اس وقت شاہ محمود قریشی ترکی میں فلسطینی وزیر خارجہ کا انتظا ر کر رہے ہیں ۔
دی سپر لیڈ ڈاٹ کام کے مطابق پاکستان ، ترکی ،سوڈان سفارتی محاذ پر متحرک ہیں اور فلسطین پر بمباری رکوانے کے لئے کوشاں ہیں ۔پاکستانی وزیر خارجہ طے شدہ پلان کے مطابق انقرہ پہنچے جہاں سوڈان اور فلسطین کے وزیر خارجہ نے بھی پہنچ کر مشترکہ طور پر نیویارک کےلئے روانہ ہونا تھا۔ یوں چار اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ نے نیویارک جا کر اقوام متحدہ آفس سے جنرل اسمبلی کے اجلاس کا مطالبہ کرنا ہے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ فلسطین کے وزیر خارجہ مقررہ وقت تک انقرہ نہ پہنچ سکے جبکہ اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا اجلاس پہلے ہی بلا یا جا چکا ہے ۔ ایسے میں ان چار رہنماؤں کا نیویارک جا نے کا مقصد کیا ہے ؟دوسرا یہ کہ بنیادی طور پر ان ممالک کی کوششیں کیا رنگ لا سکتی ہیں ؟
اسلامی ممالک کیوں خاموش ہیں ؟
اس حوالے سےامریکا میں سابق سفارتکار ڈاکٹر نسیم چودھری نے دی سپر لیڈ ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور ترکی ہی وہ اسلامی ممالک ہیں جو اسرائیل کے حملے رکوانے کےلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔ گو کہ قطری وزیرخارجہ نے بھی رابطے کئے ہیں تاہم عملی طور پر پاکستانی اور ترک وزیر خارجہ فرنٹ لائن پر موجود ہیں ۔ سوڈان نے بھی ساتھ چلنے کی حامی بھر لی ہے لیکن بدقسمتی سےکوئی اور دوسرا اسلامی ملک ہاتھ پکڑانےکو تیار نہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ترک وزیراعظم کے بیانات اہمیت کے حامل ہیں لیکن طیب اردوان بھی بعض جگہوں پر بیک فٹ پر دکھائی دیتے ہیں ۔ یعنی کوئی بھی ملک براہ راست اس کشیدگی میں اترنا نہیں چاہتا۔ ہلکی پھلکی وارننگ اسرائیل کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں اور یہ مسلم ممالک بھی جانتے ہیں ۔
شاہ محمود کا سفارتی مشن کتنا کامیاب ثابت ہوگا؟
اگر پاکستانی ، ترک اور سوڈانی وزیر خارجہ کی امریکا روانگی کو دیکھا جائے تواس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ نہ تو امریکی انتظامیہ انہیں کوئی اہمیت دے گی اور نہ ہی بائیڈن ان سے ملاقات کریں گے ۔ ایسے میں یہ دورہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو بھی ہوگا امریکا کے اشارے پر ہی ہوگا۔ وائٹ ہاؤس چاہے تو حملے فوری رکوا سکتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ بائیڈن اسرائیلی دفاعی حق یقینی بنانے کی بھی بات کرتے ہیں ۔ ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ بمباری رکوانے کا سب سے بڑا کارڈ امریکا کے پاس ہے ۔ یہاں تک کہ چینی کوششیں بھی بے کار ثابت ہو رہی ہیں ۔ چنانچہ تین اسلامی ممالک کی ہلکی سی کوشش صرف اپنے عوام کو حوصلہ دینے کے لئے ہے ۔