SUPER PERSONALITY

شعور، تحت الشعوراور لاشعورکا تعین کرنے والا فرائیڈ

وقت اشاعت :29مئی2021

ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (1939۔ 1856 ء Sigmund Freud, ) ندیم سلطان ، لندن ۔ چیکو سلواکیہ کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہوا تا ہم اس کی زندگی کا زیادہ تر حصہ آسڑیا کے دارالخلافے ویانا میں بسر ہوا۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کا یورپ کوپرنیکس،کیپلر،گلیلیو، دیکارت اور سَرآئزک نیوٹن کے زیر اثر تھا۔ اس دور میں فلسفہ اور سائنس کے میدان میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے جنھوں نے کلیسائے روم کے متکلمانہ افکار و نظریات کا طلسم توڑ ڈالا اور انسان کی توجہ عقائد پر مبنی صداقت اور حقیقت کے تخیّلی تصور سے ہٹاکر حقائق کی مادی دُنیا کی طرف پلٹ دی۔ گو سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی سے معاشرے کو بے پناہ سہولتیں اور آسائشیں حاصل ہوئیں تاہم محض مادیت پر حد سے زیادہ اعتماد اور انحصار کرنے کے باعث انسان کا روحانی اور مذہبی اقدار سے ربط و تعلق ختم ہو گیا اور صرف عقلی و مادی توجیہات ہی افکارو نظریات کی واحد اساس بن کر رہ گئیں۔

اِس فکری فضا کا سگمنڈ فرائیڈ کے نظریات پر گہرا اثر ہُوا۔ فرائیڈ نے ذہنِ انسانی کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی تین مختلف جہات شعور، تحت الشعوراور لاشعورکا تعین کیا۔ اُس کا یہ خیال ہے کہ ذہن انسانی کی انہی تین جہات کی کارکردگی کی روشنی میں انسانی فکرونظر، کردار اور رویے کے ہر پہلو کے محرکات کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ یہاں تک کہ فرائیڈ کے نزدیک مذہب کی بھی انسانی ذہن سے ماورا کوئی حیثیت نہیں۔

فرائیڈ کے نظریات سے یہ بات عیاں ہے کہ انسانی شخصیت کا مبدا صرف انسان ہے۔ ورائے انسان کوئی حقیقی روحانی یا مذہبی آ درش انسانی اعمال وافعال کا محرک نہیں۔ فرائیڈ کے بر عکس اقبال انسان کو اپنی جبلی خواہشات کا غلام قرار نہیں دیتا۔ اقبال کے نزدیک انسانی اعمال و افعال کے اصل محرکات روحانی ومذہبی اور اخلاقی عوامل ہیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جو جبلی خواہشات کی تہذیب اور تطہیر کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اقبال انسانی سرشت کی پاکی و طہارت اور نفسی پاکیزگی پر یقین رکھتا ہے۔ اُس کے نزدیک اِس خیال کی کوئی گنجائش نہیں کہ انسانی ذہن کا ایک حصہ ہمہ وقت آلودہ اور پراگندہ خواہشات، جنسی میلانات، تمنائوں اور ایسی آرزوئوں سے بھرا رہتا ہے جو ہر لحظہ اِس تاک میں رہتی ہیں کہ جب موقع ہاتھ آئے شعور پر حملہ آور ہو کر اپنا اظہار کریں اور یوں انسانی فکر و عمل کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیں۔ اقبال کے نزدیک انسان مادہ اور اُس کے میکانکی عمل کا غلام نہیں۔ انسانی طرزِ عمل کا اصل محرک ر وحانی نصب العین ہے۔ پروفیسر نعیم احمد اپنے مضمون ’’ انسانی شخصیت، فرائیڈ اور اقبال کی نظر میں ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

فرائیڈ کا انسان موروثی رجحانات اور لاشعوری اُلجھنوں کے بوجھ تلے دبا کراہتا ہوا انسان ہے جسے اُس کے اعمال وافعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال کا انسان آزاد اور خودمختار انسان ہے جو ہر دم نت نئے مقاصد اور آدرش وضع کرتا ہے اور وفورِ تخلیق میں توارث اور ماحول کے بندھنوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک اِڈ(Id) ایک ایسا نہاں خانہ ہے جہاں حیوانی توانائی ذہنی شکل اختیارکر کے تمام عرصہ غیر مبدل انداز میں موجود رہتی ہے اور عمل کی تمام تر تحریکات یہیں سے ابھرتی ہیں۔ اس کے برعکس علامہ اقبال کا نفس بصیر حقیقت ِ مطلقہ کے سیلِ رواں کے اندر زندگی بسر کرتا ہے اور یہیں سے توانائی، ہدایت اور تحریک عمل حاصل کرتا ہے۔ ۱؎

اقبال کے نزدیک انسانی فکروعمل کا اصل محرک مابعدالطبیعیاتی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر ہماری منتشراور پراگندہ داعیے (Vagrant Impulses) خواب و رویا کی صورت میں یا پھربے خودی کے کسی ایسے کمزور لمحے میں کہ جب ہم مکمل طور پر اپنے حواس میں نہیں ہوتے، اپنا اظہار کرتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ خواہشوں اور آرزوئوں کی صورت میں یہ اُکساہٹیں ہمہ وقت ہماری عمومی ذات (Normal Self) کے پچھواڑے کسی کباڑخانے (Lumber Room) میں موجود رہتی ہیں۔ اقبال رقم طراز ہیں:

If our vagrant impulses assert themselves in our dreams or at other times we are not strictly ourselves, it does not follow that they remain imprisoned in a kind of lumber room behind the normal self.2

اقبال کے اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ذہن میں کسی ایسی کالی کباڑ کوٹھڑی پر یقین نہیں رکھتا جس میں ہر لحظہ نجس خواہشات اپنے اظہار کے لیے بے چین ہوں۔ اقبال اس بات کا قائل ہے کہ ہر قسم کے مہیجات کے مقابل ایک خاص نوع کاردِ عمل راسخ ہو جاتا ہے اور اُس کا ہماری ذات کے ساتھ ایسا تلازم بن جاتا ہے کہ اُسی سے ہماری ذات کی پہچان ہوتی ہے۔ اس ردِعمل کو کسی ذات کا معمول کا ردِعمل (Habitual Response) کہا جا سکتا ہے۔ بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں کہ جب ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کو ایسے محرکات اور داعیات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جو ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل کے حصار کو توڑ کر ذات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنا چاہتی ہیں۔ اس صورِت حال کا مقابلہ کرتے ہوئے ذات میں راسخ معمول کا ردِعمل ایسی شرانگیز انگیزشوں کو دبا کر اُنھیں ذہن و قلب سے خارج کر دیتا ہے۔ بایں ہمہ بعض اوقات دبی ہوئی انگیزشیں ہماری ذات پر حاوی ہو جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں گڑ بڑ پیدا ہوتی ہے اور وہ وقتی طور پر معطل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل سے مطابقت نہ رکھنے والی انگیزشیں اس لیے ہماری ذات پر حملہ آور نہیں ہوتیں کہ وہ ہمہ وقت ہمارے ذہن کے کسی تاریک گوشے میں گھات لگائے بیٹھی ہوتی ہیں بلکہ ہماری ذات کے معمول کے ردِعمل میں اختلال اور اُس کا وقتی تعطل ان دبی ہوئی انگیزشوں کے عمومی ذات (Normal Self) پر حاوی ہونے کا باعث بنتاہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:

The occasional invasion of these suppressed impulses on the region of our normal self tends more to show the temporary disruption of our habitual system of response rather than their perpetual presence in some dark corner of the mind.3

دراصل اقبال اور فرائیڈ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ فرائیڈ کی نظر صرف مادیت اور ظاہر ی میکانکیت تک محدود ہے جبکہ اقبال مادی ظواہر سے ماورا حقائق پر بھی یقین رکھتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مابعدالطبیعیاتی حقائق کی زندگی میں حیثیت اور حیات کے حرکی پہلو میں اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جبکہ فرائیڈ انسانی فکروعمل کی ہر جہت کو لاشعورکی کاروائی قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لاشعور ہی ہمارے تمام اعمال وافعال پر حاوی ہے۔ چونکہ لاشعور کا تعلق دماغ سے ہے اس لیے انسانی فکروعمل کی ہر صورت کا مبداوسرچشمہ خود انسان ہے اور انسان سے ماورا کوئی ایسی حقیقت نہیں جو فکروعمل کے لیے تازیانہ کا باعث ہو۔ فرائیڈ کے یہی نظریات ہیں کہ جن کی بنا پر وہ مذہب کو محض وہم و خیال اور من گھڑت قرار دیتا ہے

Related Articles

Back to top button