نجیب محفوظ کونوبل انعام کیوں ملا؟

وقت اشاعت:11نومبر

ڈاکٹر محسن عتیق خان، سپر لیڈ نیوز۔ نجیب محفوظ کونوبل انعام کیوں ملا؟ نجیب محفوظ جدید عربی ادب کے ان اساطین ــثلاثہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے عربی میں نو وارد ادبی اصناف کو بام عروج پر پہنچایا۔

اگر توفیق حکیم نے عربی ڈرامے کو اور محمود تیمور نے عربی افسانے کو بین الاقوامی معیار دیا تو نجیب محفوظ نے عربی ناول کو آفاقیت عطا کی اور اسے عالمی وقار بخشا، اور اس لایٔق بنایا کی وہ دور جدید کی ترقی یافتہ زبانوں کے ناولوں کے مقابلہ میں اپنی قدروقیمت ثابت کر سکے اور اپنے وجود کا احساس کرا سکے۔

ناول نگاری کے میدان میں نجیب محفوظ کے قدم رکھنے سے دو دہائی قبل ہی فنی ناول نگاری کا آغاز ہو چکا تھا اور عربی ناول بازیچہ کے مرحلہ سے نکل کر شباب کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔محمد حسین ھیکل کے ناول ’زینب‘ (1913) سے اصل معنوں میں عربی میں فنی ناول کی بنیاد پڑی جس کے اوپر مازنی نے ’ابراہیم الکاتب‘(1931) ، توفیق الحکیم نے ’عودۃ الروح‘ (1933) اور عباس محمود العقاد نے ’سارہ‘ کے ذریعہ فنی ناول نگاری کی فلک بوس عمارت تعمیر کرنی شروع کی جسکو تکمیل تک نجیب محفوظ نے پہنچایا۔

نجیب محفوظ قاہرہ کے ایک محلہ الجمالیہ میں 1911 میں پیدا ہوئے

نجیب محفوظ نے جامعہ قاہرہ سے فلسفہ میں لیسانس کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے دوران تعلیم ہی لکھنا اور سلامہ موسی کی میگزین ’المجلہ الجدیدہ‘ میں چھپوانا شروع کر دیا،انکے ابتدائی مضامین فلسفہ اور تصورات کی تاریخ پر ہوتے تھے، اسکے بعد انہوں نے مختصر افسانے بھی لکھنے شروح کئے اور آخر کار ناول کی طرف متوجہ ہوئے۔

انہوں نے ایک ناول نگار کی حیثیت سے اپنے کیریٔر کی شروعات ایسے وقت میں کی جب پورے عالم عرب میں قومیت کا نعرہ اپنے شدو مد کے ساتھ گونج رہا تھا۔ دور حاضر کی تاریکی سے راہ فرار اختیار کر کے عظمت رفتہ کی یادوں میں پناہ لینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔محفوظ کے ابتدائی تین ناول اسی عام رجحان کو پیش کرتے ہیں، کیونکہ تینوں کے پلاٹ قدیم مصر کی فرعونی تاریخ پر مبنی ہیں۔

پہلا ناول ’عبث الاقدار‘ مصری قومیت میں فرعونی لہر کے سب سے بڑے داعی سلامہ موسی کی میگزین ’المجلہ الجدیدہ‘ کے خاص نمبر کے طور پر 1939 میں منظر عام پر آیا۔دوسرا ناول ’کفاح طیبہ‘ محفوظ کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کونکہ اسکا نام ان پانچ عمدہ ترین ناولوں کی فہرست میں تھا جنہیں مصری وزارت تعلیم کی عربی اکیڈمی نے 1941 میں ناول کے ایک مسابقہ کے نتیجہ میں منتخب کیا تھا۔اور نجیب محفوظ کا تیسرا ناول ’رادوبیس‘ 1943 میں شائع ہوا۔

محفوظ نے تین ناولوں میں معاشرے پرتبصرہ کیا

محفوظ کے یہ تینوں ناول گرچہ تاریخی نوعیت کے ہیں مگر وہ ایک عبقری ناول نگار کے ابھر کر سامنے آنے پر صاف دلالت کرتے ہیں۔ اس لئے کہ ان ناولوں میں انہوں نے تاریخ کے سہارے موجودہ معاشرہ پر نقد و تبصرہ کیا ہے ۔ ماضی کے حادثات کے ذریعہ حال پر روشنی ڈالی ہے۔ بقول ایم ایم بدوی ’’ ان ناولوں میں قدیم مصری تاریخ کی خیالی تعمیر سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ محفوظ نے فرعونی سٹنگ کو معاصر مصر کے سماجی و سیاسی حالات پر تبصرے کے لئے ایک آلہء کار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔

انہوں نے کفاح طیبہ میں خارجی عناصر یعنی انگریزی استعمار کے خلاف قومی غم و غصے کا اظہار کیا ہے جبکہ ’رادوبیس‘ میں خدیو مصر شاہ فاروق کے ظلم وستم پر تنقید کی ہے۔‘‘

’رادوبیس‘ نجیب محفوظ کے تاریخی سلسلہ کی آخری کڑی ثابت ہوا کیونکہ اس کے بعد انہوں نے قدیم مصر کی تاریخ کو ناول کی شکل میں پیش کرنے کا جو طویل منصوبہ بنایا تھا اسے ترک کر دیا اور تاریخ کے بجائے دور حاضرکو اپناموضوع بنایا۔ اپنے ناولوں کے پلاٹ مصر کی جیتی جاگتی زندگی سے اخذ کئے اور کئی ناولوں کو قاہرہ کی حقیقی گلیوں کے نام موسوم کیا۔

محفوظ کی تخلیقات کے اس نئے دور کا آغاز انکے چوتھے ناول ’خان الخلیلی‘ سے ہوتا ہے جو 1945 میں شائع ہوا اور جس کے بعد پے در پے سات ناول منظر عام پر آئے۔ خان الخلیلی 1945، القاہرۃ الجدیدۃ 1946، زقاق المدق 1947، السراب 1949، بدایۃ ونہایۃ 1951، اور تین ناولوں کا مجموعہ’’ ثلاثیۃ‘‘57۔1956۔ یہ ناول مصر کے متوسط طبقہ کی روز مرہ کی زندگی اور مصائب و آلام کے آئینہ دار ہیں، اور انکے ذریعہ نجیب محفوظ عربی میں ایک حقیقت پسند( (Realisticاور ماہر ناول نگار کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔

باستثناء ’السراب‘ جو کہ مصر کے اعلی متوسط طبقے کی جنسی مشکلات کی سطحی نفسیاتی تحلیل ہے۔دیگر ناولیں دوسری جنگ عظیم کے وقت اور اس سے پہلے کے مصر کی عام زندگی کو پیش کرتی ہیں۔

مثال کے طور پر ’ خان الخلیلی‘ متوسط طبقے کے ایک ایسے حساس گھرانہ کی تصویر پیش کرتا ہے جو اپنی قربانیوں کے باوجود مایوسی کے غار میں جا پڑا ہے اور اپنی غربت کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔القاہرۃ الجدیدۃ فلسفہ سے گریجوشن کرنے والے تین ایسے نو جوانوں کی زندگی کو پیش کرتا ہے جو مصر کے اس وقت کے میلانات و رجحانات کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔

تینوں کے رجحانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، علی طہ ایک سیکولر اور لبرل انسان ہے جو سماج اور سائنس میں یقین رکھتا ہے، مامون ایک مخلص مسلمان ہے، جبکہ تیسرا شخص محجوب عبد الدائم جو کہ ناول کا مرکزی کردار ہے ایک خود غرض قسم کا انسان ہے ۔

زقاق المدق کا شمار محفوظ کے عمدہ ترین ناولوں میں ہوتا ہے

اسکا پلاـٹ خان الخلیلی کی طرح قاہرہ کے ایک محلے کی آبادی کی روز مرہ کی زندگی پر مبنی ہے۔اس میں مختلف کرداروں کی رنگ برنگی تصویریں پیش کی گئی ہیں اور انکی زندگی کے متضاد پہلووں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔اس ناول کا پلاٹ مصری سماج کے اوپر باہری اثرات اور مصر کے اندر موجود برطانوی استعماری فوج کے تباہ کن اثر کا نقشہ پیش کرتا ہے۔

ْبدایہ ونہایہ‘ میں ایک ایسے متوسط درجہ کے گھرانے کو پیش کیا گیا ہے جو اپنے اک کمانے والے فرد کی اچانک موت کی وجہ سے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔اس خاندان میں ایک بیوہ تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے، بیوہ اپنی مختصر سی پنشن سے گھر کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔بڑا لڑکا حسن جو مستقبل میں ایک گلوگار بننا چاہتاتھا مجرمانہ کام میں ملوث ہو جاتا ہے اور ایک طوائف کے ساتھ رہنے لگتا ہے، جبکہ دوسرا لڑکا اپنی پڑھائی ترک کر کے خاندان کی اقتصادی حالت کو سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے چھوٹے بھائی کو پڑھاکر ایک فوجی افسر بناتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سادہ سی دکھنے والی لڑکی نفیسہ محلے کے سبزی فروش کے لڑکے سے غلط تعلقات قائم کر بیٹھتی ہے جس کے بعد اپنے قوی جنسی میلانات کی وجہ سے جسم فروشی کا پیشہ کرنے لگتی ہے۔اس ناول کا انجام بڑا غمناک ہے۔حسن پولیس کے ہاتھ اس حالت میں لگتا ہے کہ وہ زخموں سے چور چور ہے اور اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے، نفیسہ سکاکین کے محلے میں طوائف کے ایک کوٹھے سے برآمد ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں حسن رسوائی برداشت نہیں کر پاتا اور اسے نیل میں دھکیل دیتا ہے اور اسکے ساتھ خود بھی اس میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔

بین القصرین، قصر الشوق اور السکریہ جیسے ناولوں نے تاریخ رقم کی

اس سلسلہ کے آخری تین ناول بین القصرین، قصر الشوق اور السکریہ ہیں جو1956۔1957 کے درمیان الگ الگ حصوں میں شائع ہوئے اور ثلاثیہ کے نام سے معروف ہوئے ۔اس لئے کہ ان تینوں ناولوں کے پلاٹ ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ثلاثیہ عربی زبان میں اپنی نوع کی پہلی کوشش تھی اور اس میں محفوظ کا حقیقت پسندانہ فن اپنی انتہا کو پہنچا۔

ان تینوں ناولوں کے نام قدیم قاہرہ کی حقیقی گلیوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جہاں ان کے کرداروں کو آباد دکھایا گیا ہے۔ثلاثیہ میں ایک متوسط طبقہ خاندان کی تین نسلوں کو پیش کیا گیا ہے،اور اس کی شروعات 1971 میں اس وقت ہوتی ہے جب عرب قومیت کی ابتدا ہو چکی تھی۔ یہ1991 کے انقلاب میں اپنے عروج کو پہنچتی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران 1944 میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے