بالی وڈ کے معروف گیت نگار آنند بخشی مرتے دم تک راولپنڈی کا تذکرہ کرتے رہے

تحریر:احمد سہیل،دی سپر لیڈ ڈاٹ کام

آنند بخشی کا پورا نام آنند پرکاش بخشی تھا۔ 21 ، جولائی 1930 میں پاکستان کے شہر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہ کشمیری تھے۔ اس حوالے سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ مرتے دم تک راولپنڈی کا تذکرہ کرتے رہے ۔ وہ راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کے قریب  سپر یٹنڈنٹ آف پولیس کے گھر میں پیدا ہوئے ۔ جب وہ بیس سال کے تھے تو ان کی والدہ انتقال کرگئی تھی۔ 2، اکتوبر 1947 میں تقسیم ہند کے بعد لکھنو ہجرت کرگئے۔ اس وقت ان کی عمر سترہ   سال تھی ۔قبل تقسیم آنند بخشی دوسال رائل انڈین  نیوی میں بھی فرائص انجام سے چکے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ کراچی میں بھی قیام پذیر رہے ۔ تقسیم ہند کے بعد وہ ہندوستان کی بری فوج میں شامل  ہو  گئے۔ شروع میں وہ جبل پور فوج  کے سگنلز کروپس میں فرائس انجام دیتے رہے۔ یہاں چھ  سال ملازمت کرنے کے بعد وہ فوج کی پیادہ فوج اور ای۔ ایم۔ ای میں بھی رہے ۔ جب وہ فوج کی سگنلز کروپس میں کام کرتے تھے ۔

لتا جی اور آنند بخشی کی ایک یادگار تصویر:فوٹو کریڈٹ :بالی وڈ ہنگامہ ڈاٹ کام

آنند بخشی نے 6 مارچ 1943 میں کیمرج کالج راولپنڈی کو خیر باد کہا۔ 4 اپریل 1946 میں ا نہیں  ممبئی میں رائل نیوی کی بغاوت کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ انہوں نے 16 فروری 1951 میں فوج سے استعفا دے دیا۔ 2 اکتوبر 1954 کو آنند بخشی نے اپنی راولپنڈی کی ایک پڑوسن کملا موہن سے شادی کی۔ اکتوبر 1956 میں وہ ساٹھ گیتوں کے ساتھ ممبئی آئے۔ مگر وہ ایک عرصے تک بے روزگار رہے۔ وہ ممبئی میں دادار کے ریلوے اسٹیشن اور میرین  ڈرائیو اسٹیشن کے بنچوں   پر  بیٹھ کر اپنے خواب اور گیت لکھتے رہے ۔آنند بخشی نے موٹر مکینک اور ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر بھی کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ بمبئی میں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔۔ لیکن کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔

پھر ایک روز انہوں  نے واپس فوج میں جانے کا ارادہ کیا کیونکہ اس کے پاس پیسے ختم ہو چکے تھے اور رہنے کا کوئی ٹھکانا بھی نہ تھا۔ شہر چھوڑنے کا وقت آچکا تھا۔ اب وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھے گاڑی کا انتظار کر رہے تھے ۔ ان کی زندگی کا خواب بکھرنے جا رہا تھا کہ ان  کی زندگی میں اچانک ایک معجزہ رونما ہوا۔ اس ریلوے سٹیشن پر ایک ٹکٹ کلکٹر جس کا نام چترامل تھا ان  سے ملا۔ تعارف کے بعدجب آنند بخشی نے بتایا کہ کیسے وہ گیت گانے اور گیت لکھنے کا شوق لے کر یہاں آئے تھے  لیکن اب مایوس ہو کر واپس جا رہے ہیں تو چترا مل نے آنند بخشی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا، گھبراؤ نہیں تم ایک دن ضرور بڑے گیت کار بنو گے اور جہاں تک رہائش اور کھانے پینے کا تعلق ہے آج سے تم میرے ساتھ رہو گے۔ یہ کہہ کر چترا مل نے آنند کا ہاتھ پکڑا اور انہیں اپنے کوارٹر میں لے گیا جہاں وہ دو سال رہے ۔ اس دوران مایوسی کے کتنے ہی موڑ آئے لیکن چترا مل نے ہمیشہ ان  کا حوصلہ بڑھایا۔ آخر آنند بخشی کی زندگی میں وہ دن آ ہی گیا جس کا انہیں  بے صبری سے انتظار تھا۔ یہ 1958ء کی بات ہے برج موہن اپنی فلم  بھلا آدمی  بنا رہے تھے جس میں بھگوان دادا ہیرو کا کردار ادا کر رہے تھے۔ کہتے ہیں اس روز فلم کے گیت کار غیر حاضر تھے۔ آنند بخشی ہمیشہ کی طرح کام کی امید میں مختلف اسٹوڈیوز کے چکر لگا رہے تھے ۔ گیت کار کی غیر حاضری کی وجہ سے فلم ساز پریشان تھا۔ آنند بخشی نے پیشکش کی کہ وہ فلم کے لیے گیت لکھ سکتے ہیں ۔ یوں آنند بخشی کو گیت نگاری کا پہلا موقع ملا۔

انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے فلم کے لیے چار گیت لکھ دیے۔ پہلا گانا  او دھرتی کے لال تھا  جسے آنند بخشی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔ یہ آنند بخشی کا بمبئی کی فلمی دنیا میں پہلا قدم تھا ۔ان کی پہلی نظم ایک فوجی رسالے  سنگ سماچار  میں شائع ھوئی۔۔ ان کا پہلا گیت ۔۔۔  دھرتی کے لال نہ کر اتنا ملال  ۔۔۔ تھا جو 9 نومبر 1956 میں ریکارڈ ہوا۔ ان کو اداکار بھگوان نے فلمی دنیا   میں  متعارف کروایا۔۔آنند کو  فلم بڑا آدمی کے گیت لکھنے پر 150 روپیہ کا معاوضہ ملا۔

آنند بخشی ممبئی کے ایک سٹوڈیو میں گیت ریکارڈ کراتے ہوئے ۔ فوٹو کریڈٹ:گولڈن ایرا آف بالی وڈ

ان کی پہلی فلم  بدلا آدمی (1958) تھی۔ ان کو 1965 میں فلم  جب جب پھول کھلے  کے لکھے ہوئے گیتوں سے  مزید شہرت ملی۔ آنند بخشی نے 650 فلموں میں 3500 گیت  لکھے ۔ 1972 میں انھوں نے فلم  موم کی گڑیا  میں گیت لکھا اور اس گیت کو گایا بھی تھا ۔

انکو گیتوں پر چار بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازاگیا۔ آدمی مسافر  ہے  ( اپنا پن، 1977) ۔۔ تیرے میرے بیچ میں کیسا ہے    ( اک دوجے کے لیے، 1981) تجھے دیکھا تو  یہ جانا ضم(دل والے دلہنیا لے جائیں گے 1995)۔۔ عشق بنا (تال، 1999) نے فلمی دنیا میں ایک تاریخ رقم کر دی ۔  ان کے چالیس فلموں کے گیتوں پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔۔انہوں نے  ایکشن ڈائریکٹر کے طور پر بھی قسمت آزمائی ۔  فلم آرزو، میں کھلاڈی تو اناڑی ، پریم پتریکا، شہنشاہ میں بھی کام کیا۔ راولپنڈی  سے ان کو بہت لگاؤ تھا۔ وہ اکثر راولپنڈی کے علاقوں  کمپنی باغ ( اب لیاقت میدان)، گورڈن کالج اور ہاوڑہ بازار کا ذکر کرکے آبدیدہ  ہو جاتے ۔  وہ احسان دانش اور بسمل سعیدی سے اپنی شاعری پر اصلاح بھی لیتے رہے ۔

 زندگی کے آخری دنوں میں آنند بخشی دل اور پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا  ہو گئے ۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی کثرت سگریٹ نوشی تھی  ۔ آنند بخشی کا انتقال 30 مارچ 2002 صبح آٹھ بجے نانا وتی ہسپتال میں ہوا۔۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 72 سال تھی۔