یوسین بولٹ سے بھی تیز۔۔ عبد الخالق

میاں شامی ، دی سپر لیڈ ڈاٹ کام ۔ زمین پر دوڑتا ہوا وہ شخص یوں محسوس ہوتا تھا گویا ہواؤں میں تیر رہا ہو ، چُست و توانا اور خوبرو ڈیل ڈول کے مالک اس عظیم ایتھلیٹ کو شاید ہوا بھی خود رستہ دیا کرتی تھی۔ عروج پر پہنچنا، بلندیوں کو چھونا اور ثانی نہ رکھنا جیسے جملوں پر راج کرنے والے کو دنیا فلائنگ برڈ آف ایشیاء اور فاسٹسٹ مین آف ایشیاء کے ناموں سے جانتی ہے

2013ء میں بالی ووڈ کی “بھاگ ملکھا بھاگ ” نامی ایک فلم سینما گھروں کی زینت بنی تھی، اس فلم میں تاریخ کے کچھ اوراق کو حسب منشاء موڑ لیا گیا لیکن مجوعی طور پر معلومات پر مبنی بہترین فلم ہے۔

فلم کی کہانی انڈین ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کی زندگی کے گرد گھومتی ہے ۔ ملکھا سنگھ تقسیمِ ہند سے قبل 1935ء میں مظفر گڑھ(موجودہ پاکستان) کے ایک گاؤں گوندہ پور میں پیدا ہوا ۔1947ء میں جب پاکستان بنا تو فسادات کے نتیجے میں اس کے خاندان کے بیشتر لوگ مارے گئے ۔ ملکھا سنگھ، اسکی بڑی بہن، بہنوئی اور چند دور کے رشتہ دار دھکے کھاتے انڈین کیمپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ملکھا سنگھ اس وقت محض بارہ برس کا تھا ۔

کیمپ کی زندگی ،چھوٹی عمر میں رنگ برنگے لوگوں کی صحبت اور حالات کی سختی نے اسے جیب تراش بنا دیا، اس نے چوری کی کئی چھوٹی موٹی وارداتیں بھی کیں ۔۔۔ قدرت مہربان ہوئی، قسمت جاگی اور وہ جیب کترا انڈین آرمی میں بطور سپاہی بھرتی ہو گیا۔ فوج میں آ کر اسے معلوم پڑا کہ اسپورٹس سیکشن میں انڈے اور دودھ پینے کو ملتے ہیں۔ انڈوں اور دودھ کے شیدائی اس شخص کو ان چیزوں کا لالچ اسپورٹس سیکشن میں لے گیا ،جہاں یہ دوڑ جیت کر انعام میں ملنے والا دودھ گراؤنڈ میں کھڑے کھڑے پی جاتا۔یہ دُودھ پیتے اور بھاگتے بھاگتے انڈیا کا سب سے بڑا ایتھلیٹ بن گیا ۔

انڈیا سے باہر نکلا تو بھی کامیابیوں نے اس کے قدم چومے ایشئین گیمز 1958ء اور 1962ء جو بالترتیب ٹوکیو اور جکارتہ میں منعقد ہوئی تھیں ملکھا سنگھ کیلئے اہم سنگ میل ثابت ہوئیں، شہرت سمیٹی، ملک کا نام روشن کیا اور کامیابیوں کو گلے لگایا ۔ لیکن یہ وہ اعزازات نہیں تھے جن کی بدولت وہ تاریخ میں امر ہوا ۔

کہا جاتا ہے کہ ضلع چکوال کا شاید  ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کا جوان افواجِ پاکستان سے منسلک نہ ہو ۔ 28 نومبر 1933ء کو ضلع چکوال ہی کے گاؤں جنڈ اعوان میں ایک تابناک ستارہ افق پر روشن ہوا۔ اس ستارے کی بس یہی بدقسمتی تھی کہ وہ اس قوم سے چمکا تھا جہاں کوئی ان روشنیوں کی قدر نہیں کرتا ۔

پاکستان بننے کے چند سال بعد تقریباً 1952ء میں پاک آرمی اسپورٹس بورڈ کے سربراہ بریگیڈیئر سی ایچ بی رودھم کسی لوک فیسٹیول میں شرکت کے لئے چکوال آئے ۔ وہاں انہوں نے ایک نوجوان جو نہایت چاک و چوبند اور پھرتیلا تھا کو انتہائی دیدہ دلیری سے کبڈی جیسے سخت جان کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا ۔ اس نوجوان کے کھیل سے متاثر ہو کر انہوں نے اسے پاکستان آرمی جوائن کرنے کی پیشکش کردی ۔

تربیت کے دوران اس نوجوان کو جب تراشا جانے لگا تو انکشاف ہوا کہ یہ شخص کبڈی کے لیے نہیں بنا، اس کی ٹانگوں میں تو بجلیاں بھری ہوئی ہیں، یہ اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ یہ بھاگ سکتا ہے ۔نوجوان نے بھاگنا شروع کیا، برق رفتاری سے بھاگتے ہوئے اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی نوبت تک نہ آئی۔ اس نوجوان نے ملکی سطح پر کامیابیوں کےجھنڈے گاڑنے کے بعد عالمی مقابلوں میں قدم رکھا ۔

1954ء، 1956ءاور 1958ء میں ہونے والی ایشین گیمز میں ریکارڈز بنائے، ریکارڈز توڑے اور پاکستان کا نام روشن کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی کوئی خاص پہچان نہ تھی ۔ انگلش کمنٹریٹر اسے ” مسٹر پاکستان ” کے نام سے پکارا کرتے تھے ۔ اس نے سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میرے ملک کا نام ہے ۔۔ مثبت انداز میں پاکستان کو دنیا بھر میں متعارف کروانے والے اس شخص کا اب کسی سے تعارف نہیں اور نہ ہی قوم واقف ہے ۔

دوسری جانب ملکھا سنگھ دہلی چھوڑ کر چندی گڑھ رہنے لگا۔ وہ وقت آن پہنچا جو ملکھا سنگھ کو تاریخ کے پنوں میں ہمیشہ کے لیے روشن کر گیا۔1960ء میں صدر ایوب خان اور جواہر لال نہرو نے عوام کو قریب لانے کیلئے دونوں ملکوں کے ایتھلیٹس کے درمیان مقابلہ کروانے کی ٹھانی ،جسے انڈو پاک ریس کا نام دیا گیا ۔

قذافی اسٹیڈیم لاہور کو اس معرکے کا مقام چُنا گیا، ملکھا سنگھ کو پاکستان آنے پر تحفظات تھے، وہ پاکستان آنے کیلئے آمادہ نہیں تھا جہاں اس کے پورے خاندان کو قتل کیا گیا ۔ جواہر لال نہرو نے ملکھا سنگھ کو وزیراعظم ہاؤس بلایا ،اس کے اعزاز میں ایک پُر تکلف دعوت کا انتظام کیا ، دہلی کے عمائدین کے سامنے ملکھا سنگھ سے اس مقابلے میں شرکت کی درخواست کی ۔ ملکھا سنگھ کو بہت تگ ودو کے بعد مشروط طور پر راضی کر لیا گیا۔

کانٹے دار مقابلہ شروع ہو جاتا ہے، دماغ میں خونی یادیں بسائے ملکھا سنگھ دوڑنا شروع کرتا ہے ۔ملکھا سنگھ کا غم و غصہ اور اسکی آنکھوں میں خاندان کے ہر فرد کی موت کا منظر اس کی رفتار میں اضافے کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے حتیٰ کہ وہ ریس جیت جاتا ہے ۔ فلم میں جذبات کی بہتات اور حقیقت سے قریب تر ہونے کی بناء پر بعض مقامات پر آنسو ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے ،فلم بین کو ملکھا سنگھ سے ہمدردی ہونا قدرتی عمل کے زمرے میں آتا ہے ۔

فلم میں بار بار پاکستانی ایتھلیٹ” عبدالخالق “کا نام گونجتا ہے ۔اس گونج نے بعض ذہنوں کو جھنجوڑ دیا۔ منفی انداز میں ہی سہی مگر دفن شدہ مردے کی مانند فراموش کر دیے جانے والے ہمارے ہیرو کا نام پاکستان کی نئی نسل سے روشناس کروانے کا سہرا بھارت کے سر ہے ۔

فلم چونکہ انڈین ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بنائی گئی اس لیے فلم میں صوبیدار عبدالخالق کی ہار کا ذکر تو ہے لیکن انکی فتوحات کس قدر گراں تھیں اسکا تذکرہ نہیں ملتا، لیکن کچھ ذہنوں میں عبدالخالق کو کھوجنےکی جستجو ضرور پیدا ہوئی ۔

عبدالخالق کے بابت تحقیق کی تو معلوم پڑا کہ یہ وہ گوہر نایاب ہے جسے ہم نے حسب عادت فراموش کر دیا ہے ۔صوبیدار عبدالخالق سے مسٹر پاکستان سے فلائنگ برڈ آف ایشیا سے فاسٹسٹ مین آف ایشیا سے کون صوبیدار عبد الخالق۔۔؟؟؟

عبدالخالق ملکھا سنگھ سے کہیں بڑے ایتھلیٹ تھے، ملکھا سنگھ سٹار ہیں تو وہ سپر سٹار تھے ۔ عبدالخالق کی کامیابیوں کی فہرست بہت لمبی اور ناقابلِ یقین حد تک حیران کن ہے ۔ انتہائی کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے سمیت لاتعداد ریکارڈز کا حامل شخص عالمی سطح پر ہونے والے مقابلوں سے 36 گولڈ میڈل، 15 سلور میڈل اور 12 برونز میڈل پاکستان لے کر آئے ۔جبکہ ملکھا سنگھ نےصرف پانچ گولڈ میڈل جیت رکھے ہیں ۔

ملکھا سنگھ سے عبدالخالق کے ہار جانے کی دو وجوہات گردش کرتی ہیں ۔ پہلی پاک بھارت تعلقات میں دوستی کی گنجائش نکالنا ،صدر ایوب خان ملکھا سنگھ کو جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے ، تاکہ حالات کو نرم کیا جا سکے ۔دوسرا ملکھا سنگھ کی وہ نفرت، غصہ اور تکلیف جو اس کے پاؤں کو ہی نہیں اس کے انگ انگ کو بھگا رہی تھی ۔

صوبیدار عبدالخالق کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستانی قوم میں پیدا ہوئے ۔ ہم تو وہ قوم ہیں جو اپنے محسنوں سے بدلہ لیا کرتی ہیں۔ اپنے لیجنڈز کی بے قدری کرنا کوئی ہم سے سیکھے، فراموش اور نظر انداز کرنے کے پورے طور طریقوں سے واقف ہیں ۔ اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو گی کہ پاکستان کی نوجوان نسل کو اپنے ہیرو کا علم ایک غیر ملکی فلم دیکھ کر ہوتا ہے ۔

فرق ملاحظہ ہو کہ جہاں ہم نے اپنے سپر سٹار اور ہیرو کو یکسر بھولا دیا ہے وہاں بھارت نے ملکھا سنگھ کو کس طرح ماحول اور تاریخ کا حصہ بنا دیا ہے ۔ ملکھا سنگھ کی زندگی پر ایک کتاب “دی ریس آف مائی لائف” لکھی گئی، جس کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے ہر صوبے سے شائع کیا گیا ۔ ملک کے اہم کرکٹ، کبڈی، فٹبال اور ہاکی اسٹیڈیم ملکھا سنگھ کے نام سے منسوب کردیے گئے ۔ اسکو بھارت کے چوتھے بڑے سویلین ایوارڈ پدما شری سے نواز گیا ۔ ملکھا سنگھ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پنجاب سپورٹس بورڈ کا ڈائریکٹر بنایا گیا ۔ سب سے بڑھ کر وقت حاضر کے تقاضوں کے تحت ملکھا سنگھ کی زندگی اور کامیابیوں پر مشتمل نہایت شاندار فلم بنا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ میں درج کر دیا ۔

لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم نے اپنے ہیرو کو تاریخ میں چند سطروں کی بھی جگہ نہیں دی۔ کسی شہر، کسی اسٹیڈیم، کسی شاہراہ یا کسی چوک کو اسکی یاد سے نہ جوڑا ۔ فلم اور کتاب لکھنا تو دور کی بات، عبدالخالق کی زندگی کے متعلق ایک کالم مل جانا محال ہے ۔ میں دعویٰ کے ساتھ کہہ سکتا ہوں پاکستان کی 90 فیصد آبادی عبدالخالق سے مکمل طور پر انجان ہے ۔

آسماں سے ٹوٹ کر ہمارا ستارہ 10 مارچ 1988 کو خاموشی سے جنڈ اعوان ہی کی منوں مٹی تلے چلا گیا اور قوم کو پانی پانی کر گیا ۔

کاش کہ صوبیدار عبدالخالق کی گمنامی کا سلسلہ تھم سکے، کچھ ایسا ہو کہ ہم اُن کے احسانوں کا تھوڑا سا ازالہ کر سکیں ۔