اردو افسانے میں کردار نگاری کا بادشاہ

منیر فراز۔ لاہور۔

ایک تو اس کا نام بڑا رومانوی تھا جیسے میر کے کسی دلآویز شعر کی تقطیع کی گئی ہو ۔ را جن در سنگھ بے دی ۔ یا موسیقی کے سر ، سا رے گا ما پا دا۔۔۔۔، آپ کو نہیں لگتا،جیسے سنگ مرمر کے فرش پر شری کرشن کی مورتی کے سامنے وجد کے عالم میں رقص کے دوران میرا کے گھنگھرو ٹوٹ کر دور تک لڑھکتے چلے گئے ہوں، را جن در سنگھ بے دی ۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ان آبادیوں کے گلی نمبر نہیں ہوا کرتے تھے ، بس گلیاں ہوتی تھیں جو کسی نہ کسی نام سے مشہور ہوا کرتی تھیں ۔ یہ کراچی کے گول بنگلہ کی گلی تھی اور یہاں سے ہر دوسری تیسری شام ایک کباڑیہ اپنی شکستہ ریڑھی کے ساتھ گزرا کرتا تھا ، ادریس کباڑیہ۔ یہ نائلون کی پرانی چپلوں ، پلاسٹک کے ٹوٹے برتن ، اخبار ، کتب و رسائل کی ردی اور لوہے پیتل کے ٹکڑوں کے عوض اپنے گاہکوں کو کچھ پیسے یا “بارٹرسسٹم “کے تحت ان کے مساوی ریڑھی پر ایک کونے میں رکھی مٹھائی اور ان پر بھناتی ہوئی مکھیاں دیا کرتا تھا ۔

میں اس کے آنے تک اپنے آبائی کارخانہ سے لوہے کے کچھ اضافی ٹکڑے جمع کر لیا کرتا تھا جن کے عوض میں ادریس کباڑیہ سے اس کی ریڑھی کے ردی کے ڈیپارٹمنٹ سے ، اگر دستیاب ہوتیں ، تو کچھ کتابیں یا رسائل خرید لیا کرتا تھا ۔میری لائبریری میں طفیل احمد کے ” نقوش” کا افسانہ نمبر ، غزل نمبر ، سالنامہ ، سجیلے اختر شیرانی کا شعری مجموعہ ” لالہء طور” نشیلے عدم اور ساحر کی چند کتب اسی ادریس کباڑیہ کی یادگاریں ہیں۔ میں نے اس کمبخت میر کے دلآویز شعر کی تقطیع اور گھنگھرووں کے تمثیلی نام والے راجندر سنگھ بیدی کو پہلے پہل نقوش کے اسی افسانہ نمبر میں پڑھا تھا اور افسانہ تھا ” اپنے دکھ مجھے دے دو ” ۔ اردو فکشن میں کردار نگاری کے حوالے سے میرا پہلا تعارف اسی افسانہ کی ” اندو” سے ہوا ،مشرقی روایت ، ایثار و محبت اور پنجاب کی مٹی سے گندھی اندو، میں اب یہ افسانہ بھول چکا ہوں لیکن اندو مجھے آج بھی یاد ہے ۔خاندانی روایتوں کے دکھ سہتی اندو۔ اس کے افسانوں کے تمام کردار اسی طرح یاد رہ جانے والے ہیں۔ اختر شیرانی کی نظمیں ” ننھا قاصد” اور ” او دیس سے آنے والے بتا ” بھی اسی دور سے یوں حافظے سے چپکی ہوئی ہیں جیسے مجھے اس دور کے پہاڑوں کی ٹون آج بھی یاد ہیں۔ دو ایکم دو ، دو دونی چار۔

او دیس سے آنے والے بتا ، کس حال میں ہیں یاراں وطن۔ میں یہاں بیدی کے فن پر تنقیدی مضمون نہیں لکھ رہا، تنقیدی مضامین کتابوں میں اچھے لگتے ہیں ۔ بس مجھے وہ اچھا لگتا تھا ، صرف یہ بتانا چاہتا ہوں ۔ کیوں بتانا چاہتا ہوں، یہ بھی نہیں پتا ، شاید وہ ستمبر میں پیدا ہوا تھا اور مجھے ستمبر میں وہ یوں ہی یاد آگیا ۔ یا شاید محبی یاسر حبیب نے حال ہی میں اس کا ایک افسانہ ” گرم کوٹ ” پوسٹ کیا اور مجھے وہ یاد آگیا ۔ میں بیدی کی نثر اور اس کی شخصیت کا عاشق ہوں اور اپنے محبوب کی چند باتیں کرنے بیٹھ گیا ہوں اور یہ جو ” عالمی ادب کے اردو تراجم ” والا گھرانہ ہے اس کے افراد خانہ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں، یہ بات کرتے ہیں، سنتے ہیں ، سمجھتے ہیں ، رائے دیتے ہیں۔

تو میں آپ سے کہہ رہا تھا یہ جو کرتے کے رنگ سے میچ کرتی پگڑی پر کلف اور کپڑوں پر دیسی خوشبو لگا کر ادبی محفلوں میں آخری نشت پر بیٹھتا ہے اور ہاتھ لہرا لہرا کر حفیظ جالندھری کے شعروں پر داد دیتا ہے ، ساحر لدھیانوی اور مجاز سے عید پر گلے ملتا ہے اور کرشن چندر پر ہولی کے روز رنگ پھینکنے چلا جاتا ہے اور گھر میں گرونانک کی “جپ جی صاحب ” کو پڑھتا ہے ۔یہ بیدی میرا محبوب ہے۔ اور یہ جو دن میں خاکی وردی پہن کر ڈاک کے لفافوں پر مہریں لگاتا رہتا ہے اور شام کو چکنی مٹی اور توڑی کے آمیزے سے تیار کئے گئے گارے سے لپےصحن میں بیٹھ کر اسی چکنی مٹی اور توڑی کے گھروں کی کہانیاں لکھتا ہے، مجھے اس کی نثر سے پیار ہے ۔ میں آپ کو اپنے محبوب کی چند یادگار تصویریں دکھانا چاہتا ہوں ۔

ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر کی آسامی ہے، کم سے کم تعلیم گریجویشن ہے ایک خستہ حال انٹرمیڈٹیا انٹرویو کے لئے ادب کے دیو ہیکل اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر پطرس بخاری کے سامنے بیٹھا ہے، ابھی انٹرویو مکمل نہیں ہوتا اور یہ دیو ہیکل اٹھ کر خستہ حال انٹرمیڈٹیے بیدی کو گلے لگا لیتا ہے۔ یہ گلے لگانا گویا تقرر نامہ ہے ۔ سچ بتائیے، پطرس بخاری جسے گلے لگا لے، مجھے اس کا عاشق نہیں ہونا چاہئے؟

سن سینتالیس کے فسادات کا زمانہ ہے ایک مسلم گھرانے کو چند فسادیوں نے گھیر رکھا ہے ایک بانکا اپنے سردار دوست کے ساتھ آرمی کی وردی پہن کر فسادیوں کے درمیان گھس جاتا ہے ، فوجی کی ایکٹنگ کرتا ہے اور مسلم گھرانے کی ماوں بہنوں کو صاف بچا لے جاتا ہے ۔ یہ اوہنری یا اگاتھا کرسٹی کی کسی کہانی کا کردار نہیں ہے، یہ “ہاتھ ہمارے قلم ہوئے ” والا بیدی ہے اور یہ اس کا افسانہ نہیں ، اس کی شخصیت ہے۔ آپ نے دلیپ کمار کی” دیوداس” یا ” داغ” دیکھی ہو اور دلیپ کمار کے سر کو دائیں بائیں حرکت دے کر جذباتی اور رومانوی مکالموں کی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے ہوں تو ان کے پیچھے میرے محبوب ہی کا قلم تھا ۔

بمل رائے کی “مدھومتی” کی محبت کی ماورائی کہانی میں اگر آپ گم ہو گئے تھے اور آپ نے فلم “مرزا غالب ” کی ثقیل و شائستہ اردو کا لطف اٹھایا ہے تو میں آپ کو بتا دوں کہ یہ ” کوکھ جلی” کا خالق بیدی ہی ہے ۔ مکالمہ ، تمثیل ، افسانہ ، ڈرامہ یا ہدایات ، وہ ہر شعبہ میں یکتا نظر آتا یے ۔اس کے بے مثال ناول ” ایک چادر میلی سی” کو بڑی شہرت ملی۔ خشونت سنگھ نے I Take this woman کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کر کے دنیا کے عالمی ادب کی لائبریریوں تک پہنچایا اور پاکستان کی خاتون ہدایتکارہ سنگیتا نے اسے ” مٹھی بھر چاول ” کا نام دیکر فلم میں ڈھالا ۔ اب ایک ایسا شخص جو تپ دق میں مبتلا اپنی ماں کے بستر سے لگا رہتا تھا اور اس کی تمام ضروری حاجتیں اپنے ہاتھوں سے پوری کرتا تھا ، اس کے کپڑے دھوتا تھا ، اس کے بال بناتا تھا ۔

ایسا شخص اگر کہانیاں لکھنے بیٹھے گا تو بتائیےکیا لکھے گا ؟ بس یہی اس کی کہانیوں کا مرکز تھا جو ابھی ابھی آپ کے ذہن میں ابھرا ۔ اس کے پاس بس یہ دو طلسم ہی تھے ، اس کا مشاہدہ اور تخیل ۔ اب آپ بیدی کو پڑھیں گے تو اس کی ہر کہانی میں اس کی شخصیت کے یہ پہلو واضح نظر آئیں گے ۔ اپنے وقت کے کسی ارب پتی تاجر سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کی خواہشات کیا ہیں تاجر نے جواب دیا میں ایک بار اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں جس نے میری کسمپرسی کے دنوں میں جب میں جوے میں اپنا آخری داو ہار چکا تھا ، ایک ڈالر قرض دیا جس کی بدولت میں جیتتا چلا گیا اور ایک کامیاب بزنس کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا ۔

میں اگر اپنی زندگی کے کچھ ایسے گمشدہ لوگوں سے ملنا چاہوں گا تو اس فہرست میں رومانوی نام والا ادریس کباڑیہ بھی ضرور آئے گا، جس نے مجھے پہلے پہل راجندر سنگھ بیدی سے ملوایا ۔ راجندر سنگھ بیدی ، جیسے میر کے کسی دلآویز شعر کی تقطیع کی گئی ہو۔ جیسے شری کرشن کی مورتی کے سامنے وجد کے عالم میں رقص کے دوران میرا کے گھنگھرو ٹوٹ کر دور تک لڑھکتے چلے گئے ہوں